طبیبوں سے نظر کی چوٹ پہچانی نہیں جاتی
طبیبوں سے نظر کی چوٹ پہچانی نہیں جاتی
پریشاں ہیں کہ کیوں میری پریشانی نہیں جاتی
کسی صورت مری آشفتہ سامانی نہیں جاتی
بیاباں بس گئے اور گھر کی ویرانی نہیں جاتی
فنا کے گھاٹ تک غم کی ستم رانی نہیں جاتی
بہی جاتی ہیں آنکھیں اشک افشانی نہیں جاتی
تمہارا حکم ہے وہ حکم جو ٹالا نہیں جاتا
ہماری بات ہے وہ بات جو مانی نہیں جاتی
خدا شاہد ہے میں اپنی تباہی کا ہوں خود باعث
اب اس کو کیا کروں اس کی پریشانی نہیں جاتی
حیاتؔ غم زدہ کے دل کی ویرانی کو مت پوچھو
ہوا ہے ایسا ویراں جس کی ویرانی نہیں جاتی