زمیں کے ذرے ذرے نالہ و فریاد کرتے ہیں

زمیں کے ذرے ذرے نالہ و فریاد کرتے ہیں
چلے آؤ در و دیوار تم کو یاد کرتے ہیں


مزا آتا ہے کچھ ان کو ہمارا دل دکھانے میں
کبھی ہم نالہ کرتے ہیں کبھی فریاد کرتے ہیں


بتا دے اے نظر سے دور رہ کر روٹھنے والے
کسی کی اس طرح دنیائے دل برباد کرتے ہیں


مریض ہجر کی بالیں پہ تم اک بار آ جاتے
تمہارے چاہنے والے تمہیں کو یاد کرتے ہیں


زبان بے زبانی کی حیاتؔ اب انتہا یہ ہے
ہمیں جس نے بھلا ڈالا اسے ہم یاد کرتے ہیں