تازہ ہوا کے واسطے کھڑکی نہ بن سکا

تازہ ہوا کے واسطے کھڑکی نہ بن سکا
دے دوں کسی کو چھاؤں وہ بدلی نہ بن سکا


بیٹا بسا بدیس میں دولت کے ڈھیر پر
لیکن وہ بوڑھے باپ کی لاٹھی نہ بن سکا


شاعر کا واسطہ بڑا گہرا ہے بھوک سے
اس کا کلام آج بھی روٹی نہ بن سکا


کیوں کر کروں امید تو مجھ سا بنے گا دوست
جیسا میں چاہتا ہوں وہ خود بھی نہ بن سکا


کعبے سے لوٹ کر وہی سود و زیاں کی فکر
حج کر لیا مگر کبھی حاجی نہ بن سکا


رہ کے بھی دور سن سکے ابا کی کھانسیاں
بیٹا کبھی بھی باپ کی بیٹی نہ بن سکا


خود کی کمی کو چھوڑ کر غیروں پے ہی اٹھے
میں آج تک سحابؔ وہ انگلی نہ بن سکا