شبدوں کا گل مہر
کال نے لکھ دیا مجھے شبدوں کے مانند میرے یگ کے چہرے پر چاہتا ہوں فقط شبدوں کا سلگتا گل مہر بطور وصیت اگلے یگ کو سونپا جائے
کال نے لکھ دیا مجھے شبدوں کے مانند میرے یگ کے چہرے پر چاہتا ہوں فقط شبدوں کا سلگتا گل مہر بطور وصیت اگلے یگ کو سونپا جائے
دو لہریں ساتھ رہتی ہوئی جب کبھی ملنے کو ہوتی ہیں تو لگتا ہے ماں کے ہونٹھ کچھ کہنا چاہتے ہیں ندی کبھی سوتی نہیں ہے مڑتی ٹھٹھکتی بھٹکتی اور ٹکراتی ا ورام بہتی رہتی ہے ندی صدیوں تک بہت ہوا تو اونگھتی ہیں اس کی لہریں اداسی میں کبھی کبھی پانی کی پرتوں کے بیچ گونجتا ہے سناٹا کچھ ٹوٹتا ...
کانپتے ہاتھوں سے میں جہاں لکھوں گا پیار وہاں کمل پتر کھل جائے گا ایک دن بھیتر جنم لیتے امڈتے نادانراگی ساگر کی لہروں پر تر کر اک دن وہ سچ ہو جائے گا سچ مجھے معلوم نہیں تھا
ہر روز کی طرح دن آج بھی سورج کی گواہی لے کر آخر اندھیری گلیوں میں گھس آیا اور ہم اپنے اپنے گھر کے نیایے دھیش سورج کی گواہی کے عادی ہو چکے ہیں سچ مان لیتے ہیں اور یوں کہیں نہ کہیں اپنے ہی بکھراؤ میں ساجھی ہو چکے ہیں ہمیں اس سورج کی گواہی نہیں چاہیے جو کسی پیشے ور گواہ کی طرح دن کی ...
دکھ ندی ہے گہری سمرتیوں کی بہتی رہی بے آواز تھکی ٹوٹی اکیلے پن سے پر کہاں ٹھہری