سنتا ہے میرے ہم نشیں کہتی ہے یہ بہار کیا
سنتا ہے میرے ہم نشیں کہتی ہے یہ بہار کیا
پھولوں سے دوستی نہ کر پھولوں کا اعتبار کیا
بازئ دل کی مات پر بڑھ گئے اور حوصلے
حسن کی جیت جیت کیا عشق کی ہار ہار کیا
حسن پہ ناز کیجئے آپ مگر نہ بھولیے
حسن تو چڑھتی دھوپ ہے دھوپ کا اعتبار کیا
دے کے چمن کو اپنا خوں مانگتا کب ہوں خوں بہا
میں ہوں بہار کے لئے میرے لئے بہار کیا
لذت انتظار میں کھو گئے ہم تو اے ندیمؔ
اپنا بھی انتظار ہے ان کا ہی انتظار کیا
دل میں ہے انور آج بھی آتش غم سے روشنی
ملتی ہے اس مقام پر سرحد نور و نار کیا