سنی سنائی وہ آواز مر ہی جانے دو
سنی سنائی وہ آواز مر ہی جانے دو
صدی کا غم ہے تو لمحے بکھر ہی جانے دو
میں اپنی جان کی بازی لگائے بیٹھا ہوں
ہر اک بلا مرے سر سے گزر ہی جانے دو
لہو کے چھینٹوں سے ہو جائے گی فضا گلنار
ہمارے سینے میں خنجر اتر ہی جانے دو
یہ انتشار کا عالم یہ پر خطر ماحول
عزیزو کاکل گیتی سنور ہی جانے دو
تمہیں بھلانے سے دل کو سکون ملتا ہے
تم اپنی یادوں کے یہ زخم بھر ہی جانے دو
حبابؔ سب کے لئے ایک درس عبرت ہے
اسے بھی چند گھڑی کو ابھر ہی جانے دو