سکوں یہ اپنے سویروں کا چین رین کا
سکوں یہ اپنے سویروں کا چین رین کا
کوئی حساب نہیں ہے خدا کی دینوں کا
مکان کچے تھے وعدے تھے پکے دل روشن
زمانہ تھا وہ چراغوں کا لالٹینوں کا
یہ سچ ہے گاؤں کی راتیں خاموش ہوتی ہیں
مگر وہ شور گزرتی ہوئی ٹرینوں کا
گلے کا ہار صلیبیں ہیں سب دکھاوے کی
یہاں رواج ہے اب تو طلائی چینوں کا
ہلاک ہوتی ہے مخلوق اور خداؤں پر
کوئی اثر ہی نہیں شیونوں کا بینوں کا
وہاں مشاعرے پڑھنے چلی ہو تم پروینؔ
جہاں ہے زور لتاؤں کا تانسینوں کا