سکندر کے سفر کی بات نکلے
سکندر کے سفر کی بات نکلے
کفن میں سے ہوں خالی ہاتھ نکلے
وہ کل کی فیس بک وہ کیفؔ و شعریؔ
وہ دیکھو چاند سورج ساتھ نکلے
میں نکلوں چاندی اور سونا پہن کر
مگر مٹی مری اوقات نکلے
توقع لے کے وہ آیا تھا لیکن
اسی جیسے میرے حالات نکلے
جہاں ارتھی اٹھائی جا رہی ہو
اسی کوچے سے کیوں بارات نکلے
ستاروں کا شرف کیا وہ تو پروینؔ
ہماری ذات کے ذرات نکلے