ہم خدا تھے نہ خدائی اپنی

ہم خدا تھے نہ خدائی اپنی
کیا بیاں کرتے بڑائی اپنی


بس ترا دھیان مجھے آیا تھا
پھر کبھی یاد نہ آئی اپنی


سب پہنچ میں ہیں مگر کیا کہیے
کس کے دل تک ہے رسائی اپنی


دل میں لائے ترے خوابوں کا خیال
ہم نے خود نیند اڑائی اپنی


تم یہ کہہ دو چلو ہم ہار گئے
ختم کی میں نے لڑائی اپنی


کون سمجھے گا یہ آنسو ہیں گہر
کیوں لٹاتے ہو کمائی اپنی