سکوں کی موج اٹھی شور و شر روانہ ہوا
سکوں کی موج اٹھی شور و شر روانہ ہوا
مرا ورود حریفوں کو تازیانہ ہوا
بہ پاس وضع مرا مسلک وفا ہے وہی
اگرچہ آپ کو بدلے ہوئے زمانہ ہوا
خوشا وہ سر کہ جھکا جو حد تعین میں
زہے وہ سجدہ کہ جو صرف آستانہ ہوا
ستم کیا جو بہ منشائے دشمنی تو نے
مری طرف سے جواب اس کا مخلصانہ ہوا
غم حیات کی دیرینہ سرگزشت نہ پوچھ
تری نگاہ کو بدلے ہوئے زمانہ ہوا
وہ ان سے پائے گا داد کلام اے ندرتؔ
مذاق جس کی طبیعت کا عاشقانہ ہوا