سکھ کی بہتات ہے زندگی زخم دے
سکھ کی بہتات ہے زندگی زخم دے
میرا دکھ بانٹ کر پھر کوئی زخم دے
جستجو پھر کوئی دل میں رستہ بنا
پھر سے ناکامیوں کا وہی زخم دے
روشنی ہو نظر در نظر روشنی
اک کمی ہے کمی در کمی زخم دے
گم شدہ چاہتوں کا وظیفہ پڑھا
بولتے منظروں کی گلی زخم دے
تو مجھے زندگی کا قرینہ سکھا
مجھ پہ احسان کر دل لگی زخم دے
درد کا ذائقہ بھول بیٹھا ہوں میں
ایسا کر تو مجھے اس گھڑی زخم دے
نطق عادلؔ کی شیرینی کم ہو ذرا
تلخیٔ ہجر کی بیکلی زخم دے