صبح سے تھوڑا ادھر اور گئی رات کے بعد

صبح سے تھوڑا ادھر اور گئی رات کے بعد
لوٹ آیا ہوں درختوں سے ملاقات کے بعد


عشق میں رنگ نہیں نسل نہیں شجرہ نہیں
اس کا آغاز ہے ان سب کے مضافات کے بعد


ابر برسے تو کھل اٹھتی ہے زمیں کی خوشبو
خوشیاں ملتی ہیں ہمیشہ کئی صدمات کے بعد


لطف ہے مانگنے میں اس لئے ہم مانگتے ہیں
ہم کو مطلب نہیں کیا ہوگا مناجات کے بعد


بات حیرت کی تو یہ ہے کے بدل جاتی ہے
میری اوقات ترے ہجر کے اوقات کے بعد