صبح مٹی ہے شام ہے مٹی

صبح مٹی ہے شام ہے مٹی
یعنی اپنا مقام ہے مٹی


کس جگہ پر کروں بسیرا میں
جو بھی ہے وہ قیام ہے مٹی


دائمی کچھ نہیں ہے رہنے کو
جس کو دیکھو دوام ہے مٹی


اب تو آ اور تو سنبھال اسے
دیکھ لے یہ غلام ہے مٹی


لغزش زندگی سے علم ہوا
موت کا ہی پیام ہے مٹی


میں نے دفنا دیا ہے خواہش کو
کیونکہ خواہش کا نام ہے مٹی


مٹی ہے بے زباں مگر تنہاؔ
بے زباں کا کلام ہے مٹی