جب کبھی درد کے ماروں کی طرف دیکھتا ہوں
جب کبھی درد کے ماروں کی طرف دیکھتا ہوں
میں حقیقت میں ستاروں کی طرف دیکھتا ہوں
ڈوبتا ہوں تو مجھے ہاتھ کئی ملتے ہیں
کتنی حسرت سے کناروں کی طرف دیکھتا ہوں
چادریں ان کو میسر ہیں مگر مجھ کو نہیں
میں تو سردی میں مزاروں کی طرف دیکھتا ہوں
کیوں روانی لیے آیا ہے یہاں پر دریا
فکر ہوتی ہے سواروں کی طرف دیکھتا ہوں
اب مرے گھر سے کہاں چاند دکھائی دے گا
میں یہ حسرت لیے تاروں کی طرف دیکھتا ہوں
ہاں مصیبت کوئی آ جائے اچانک مجھ پر
تو کہیں بھی نہیں یاروں کی طرف دیکھتا ہوں