افسانہ

محمد شریف کا عدم گناہ

اس کا دماغ سن سے رہ گیا، زمین پاؤں تلے کھسک گئی، ڈھائی لاکھ کا غبن۔۔۔ وہ سر تھام کر بیٹھ گیا ۔ منٹوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ اکاؤنٹس کلرک محمد شریف نے ڈھائی لاکھ کا غبن کیا ہے ۔ کسی کو یقین نہیں آیا کہ یہ کام اسی کا ہے لیکن کمپنی کے لیجر بک میں اس کا نام درج تھا اور کیش ...

مزید پڑھیے

اونٹ

افسانہ: مولانا برکت اللہ وارثی کا اونٹ سرکش تھا اور سکینہ رسی بانٹتی تھی۔ مولانا نادم نہیں تھے کہ ایک نامحرم سے ان کا رشتہ اونٹ اور رسی کا ہے، لیکن وہ مسجد کے امام بھی تھے اور یہ بات ان کو اکثر احساس گناہ میں مبتلا کرتی تھی۔ جاننا چاہئے کہ اونٹ کی سرکشی کہاں سے شروع ہوتی ہے ...

مزید پڑھیے

بہرام کا گھر

اب آنگن میں پتّے نہیں سرسراتے تھے۔ درو دیوار پر کسی سائے کا گمان نہیں گزرتا تھا۔ بڑھیا کے آنسو اب خشک ہو چکے تھے۔ وہ روتی نہیں تھی۔ بیٹے کا ذکر بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ اب دور خلا میں کہیں تکتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی تو ہائے مولا کہہ کر چیخ اٹھتی اور پھر خاموش ...

مزید پڑھیے

آخری سیڑھی کا مسافر

’’پہچانا۔۔۔؟‘‘شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے حد آہستہ سے اس نے یکایک سر گوشیوں کے انداز میں پوچھا تو میری آنکھیں اس کے چہرے پر روشنائی کے دھبّے کی طرح پھیل گئیں ۔ اس کے بال کھچڑی ہو رہے تھے ۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں اور گال ٹین کے خالی ڈبّوں کی طرح پچکے ہوئے تھے ۔اگرچہ اس کے چہرے پر ...

مزید پڑھیے

بگولے

قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی لتیکا رانی اپنے برہنہ جسم کو مختلف زاویوں سے گھوررہی تھی ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مطمئن سی فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں پر اسرار سی چمک۔ ایک ایسی چمک جو شکاری کی آنکھوں میں اس وقت آتی ہے جب وہ اپنا جال اچھی طرح بچھا چکاہوتا ہے اور ہونٹوں پر ایک مطمئن ...

مزید پڑھیے

آنگن کا پیڑ

دہشت گرد سامنے کا دروازہ توڑ کرگھسے تھے اور وہ عقبی دروازے کی طرف بھاگا تھا ۔ گھر کا عقبی دروازہ آنگن کے دوسرے چھور پر تھااور باہر گلی میں کھلتا تھالیکن وہاں تک پہنچ نہیں پایا ۔آنگن سے بھاگتے ہوئے اس کا دامن پیڑ کی اس شاخ سے الجھ گیا جو ایک دم نیچے تک جھک آئی تھی۔ یہ وہی پیڑ تھا ...

مزید پڑھیے

مصری کی ڈلی

راشدہ پر ستارہ زہرہ کا اثر تھا۔۔۔ وہ عثمان کے بوسے لیتی تھی! راشدہ کے رخسارملکوتی تھے۔ ہونٹ یاقوتی۔ دانت جڑے جڑے ہم سطح۔ اور ستار ہ زہرہ بُرج حوت میں تھا اور وہ سنبلہ میں پیدا ہوئی تھی۔ سنبلہ میں قمر آب و تاب کے ساتھ موجود تھا اور راشدہ کے گالوں میں شفق پھولتی تھی۔ آنکھوں میں ...

مزید پڑھیے

زندگی

کُوڑے کے ڈھیر پر بائیں کروٹ کے بل دائیں بازُو اور ٹانگ کو ایل کی شکل میں پھیلا کر بوڑھا ڈیوڈ اس طرح لیٹا تھا جیسے اُس کے پہلو میں جُوس کے خالی ڈبے ، بوتلیں ، سٹرا ، ٹِن اور پھلوں کے چِھلکے نہیں بلکہ گورے پاؤں والی خود لیٹی ہو ۔پاؤں کے دُودھیا پنجے سے پُھوٹتی مِلکی روشنی کے انعکاس ...

مزید پڑھیے

روشنی چاہیے،زندگی کے لیے

وہ خواب تھا یا گمان تھا یا دونوں کے درمیان کوئی ساعت مگر اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا، خاص کر اس مقام پر جہاں روشنی کی ننھی سی کرن پھوٹنے کا ذرا سا بھی گمان ہوتا اندھیرا وہاں سب سے پہلے پہنچتااور اُمید کی کرن کو نکل کر پھیلنے سے پہلے نگل لیتا،روشنی سسک رہی تھی اور اندھیرا ...

مزید پڑھیے

اپنا اپنا قفس

’’ ماہی ،ما ہرہ، اے ماہرہ‘‘ ایک آ واز ہے جو میرے حافظے میں یوں رچ بس گئی ہے کہ میں چاہنے کے باو جود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی ۔ابا میاں کا سارا مرکز و محور میں ہی تھی، کبھی کبھی دل چاہتا سنی ان سنی کر دوں اور کہہ دوں: ’’ بابا خدا کے لیے آپ کی اور بھی اولادیں ہیں نا ۔۔۔آپ صرف مجھے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 32 سے 233