روشنی چاہیے،زندگی کے لیے

وہ خواب تھا یا گمان تھا یا دونوں کے درمیان کوئی ساعت مگر اندھیرا تھا کہ بڑھتا ہی جارہا تھا، خاص کر اس مقام پر جہاں روشنی کی ننھی سی کرن پھوٹنے کا ذرا سا بھی گمان ہوتا اندھیرا وہاں سب سے پہلے پہنچتااور اُمید کی کرن کو نکل کر پھیلنے سے پہلے نگل لیتا،روشنی سسک رہی تھی اور اندھیرا قہقہے لگا رہا تھا،میں اس لمحے کے عذاب سے نکلنے اور روشنی کی جانب بڑھنے کی ان تھک کوششیں کر رہی تھی لیکن کوئی تھا جو مجھے بھی آگے بڑھنے سے روک رہا تھا ۔۔۔اور پھر سار ی روشنیاں گل ہو گئیں اور دل کی آنکھ کھل گئی۔
’’یہ کون ہے جو اند ھیرے میں روشنی بن کر جگمگا رہا ہے؟‘‘
میں بہت غور سے دیکھتی ہوں،اس کا چہرہ نظر نہیں آتامگر اس کے چاروں طر ف روشنی ہی روشنی ہوتی ہے،پھر اس چہرے کے ساتھ بہت سے ستارے جھلملانے لگتے ہیں مگر کوئی بھی چہرہ صاف نظر نہیں آتا، روشنی کے ہالے نظر آتے ہیں ،روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے۔
غور سے دیکھتی ہوں تو پہلے تو آگ اور خون میں جلتی ،جھلستی اور نہائی ہوئی صورتیں مسکراتی جگمگاتی ہیں ۔میرے ذہن کے کینوس پر علم و آگہی، آزادی اور حق کی نمائندگی کرنے والوں کا جلوس اُبھر تا ہے، میں انھیں پہچاننے کی کوشش کرتی ہوں ، ننھی ننھی بچیاں ہاتھوں میں کتابیں لیے درس گاہ سے نکل رہی تھیں ،ان کے پیچھے معصوم اور ننھے منے بچوں کی صفیں تھیں،ان سب کے چہروں سے روشنی پھوٹ رہی تھی، بہت سے تازہ واردانِ رہ نوردِ شوق تھے جو اندھیرا دور کرنے کی غرض سے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی شمعیں لیے آگے بڑھنا چاہتے تھے مگراندھیرا تاک لگائے ان کا انتظار کرتا اور جیسے ہی وہ سامنے آتے ایسا کاری وار کرتا کہ وہ اُٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔۔۔۔پھر میرے سامنے ایک اور سر کٹ کر گرا، میں نے آنکھیں مل مل کر دیکھااور درد کی ایک اذیت رساں ٹیس جسم و جاں میں اُترتی چلی گئی۔یہ تو وہی طالبِ علم تھا جو اپنے ذہن کے اندھیروں کو روشنی سے مزین کرنا چاہتا تھا،حق کی تلاش کا جویامگر سراپا سوال تھااور تشکیک کے مراحل سے گزرکر روشنی کو دیکھنے اور سب کے سامنے لانے کا خواہش مند، اس سفر میں وہ تنہا نہیں تھا، جو بھی حقیقت کی تلاش میں نکلتا گلِ مراد حاصل کرنے سے پہلے ہی سیاہ زہریلے ناگ اُسے ڈس لیتے، اورسوال کرنا ہی سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا، کوئی عدالت لگتی نہ مقدمہ قائم کیا جاتا، نا کردہ گناہوں کا الزام عائد کرکے سنگسار کر دیا جاتا۔
اس نے بھی تو محض ایک چھوٹا سا سوال کیا تھا۔
’’۔۔۔مگر میرا قصور کیا ہے؟‘‘ کلاس روم میں بھی وہ اپنے اساتذہ سے یہی سوال کرتاکہ جب دنیا کے سا رے مذاہب اور خاص کرہمارامذہب انسانیت کی بقااور حقیقت تک رسائی کی تعلیم دیتا ہے پھر یہ کون لوگ ہیں جو مذہب کے ٹھیکے دار بن کر معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں،یہ کلامِ پاک اوراُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں ہمارے سوالوں کا جواب دے کر ہمیں مطمئن کرنے کے بجائے مذہب کے برعکس اپنے بنائے ہوئے غلط اصولوں پر عمل نہ کرنے والوں کو واجبِ قتل قرار دیتے ہیں ، انھیں تو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔۔۔‘‘ وہ ایک طالب علم نہیں تھا وہ تو سارے طالب علموں کی طرف سے سراپا سوال تھا ،وہ جاننا چاہتا تھا، تشکیک کو یقین سے بدلنا چاہتا تھا ،اُس کے اُٹھائے ہوئے سوال کو اساتذہ بھی صحیح سمجھتے مگر اُنھیں اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں عزیز ہوتیں، لہٰذا وہ ایسے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کرتے۔اُن کا دل چاہتا اس سے کہہ دیں کہ تمھارا قصور صرف یہ ہے کہ تم ایسے دور میں پیدا ہوئے ہو جس میں سوال کرنے اور حق کی بات کرنے والوں کو مار دیا جاتا ہے۔مارنے والے علم و آگہی کے راستے کی رکاوٹ ہیں وہ خود کو عالمِ دین قرار دیتے ہیں مگر
دین سے بہت دور ہیں۔اسی کلاس روم میں اس کے بعض ساتھی غضب ناک نگاہوں سے اسے دیکھتے اور دل ہی دل میں اسے ملحد قرار دیتے ، ان کے
ذہنوں میں پلتے ہوئے سانپ سر اُٹھاتے اور ایسے سوال کرنے والوں کو ڈس لینے کی ترکیبیں سوچتے۔
آہستہ آہستہ کلامِ پاک دور ہوتا گیا اور ’’ دو رکعتوں کے اماموں‘‘کی تعداد بڑھتی گئی، اندھیرے بڑھتے رہے اور روشنی کے متلاشیوں کے قتل ہوتے رہے۔ حدِ نظر تک کم سن بچوں اور نو خیز جوانوں کے لاشے پڑے ہوئے تھے ۔ انھیں دیکھنے ،پہچاننے اور تدفین کی غرض سے لے جانے والوں میں عزیز و اقارب کے ساتھ ان کے والدین بھی شامل تھے،ماؤں کو ہرساکت جسم پر اپنے بچے کا گمان ہوتا ۔ ،ہجوم کو چیرتی، کاٹتی، بین کرتی مائیں ضبط کا بندھن توڑ چکی تھیں ،اُنھوں نے لاشوں کے درمیان گھس کر اپنے اپنے چاند کی پیشانی چومنا چاہی مگر اُن کی چیخیں نکل رہی تھیں ، ان پیشانیوں سے اُبلتے ہوئے گرم خون نے منجمد ہو کر گھاؤ کی صورت اختیار کر لی تھی۔ سب کے ہاتھ ،پاؤں کاٹ دیے گئے تھے اور بعض سروں کو تو تن سے بھی جدا کر دیا گیا تھا ،ہجوم میں ایک ننھا سا بچہ بھاگتا ہوا آیا،کٹے پھٹے لباس اور غبار آلودہ سر بریدہ لاشوں کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لیے سہم گیا پھر اپنی ماں سے چمٹ کر بولا:
’’ماں جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو وہ لوگ مجھے بھی مار دیں گے نا؟‘‘
ماں نے دونوں ہاتھوں کا حلقہ بنا کراپنے بچّے کو بھینچ کر آنچل میں چھپا لیااور اپنی پھٹی پھٹی آنکھیں ابر آلود آسمان پر جمادیں۔