افسانہ

مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر

ماسٹر کے گھر کے قریب پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی اندر گلی میں لے جانے سے انکار کردیا۔ ’’پچھلی بار کس نے سالن پھینک دیا تھا صاحب جی۔‘‘ اس نے حتی الامکان ادب کے ساتھ کہا۔۔۔ ’’اور اس سے پچھلی بار تین چھوکرے۔۔۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ منظر نے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔ ...

مزید پڑھیے

کہانی ایک کردار کی

ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا۔ مشہور ادیب عابد شہباز کا تخلیق کردہ مقبول کردار شکیل رات کے ڈھائی بجے زندہ ہوگیا۔! زندہ کیا ہوگیا، یوں سمجھئے کہ جیسے ہوش میں آگیا۔ اب خدا کے واسطے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ آپ نہ عابد شہباز سے واقف ہیں اور نہ اس کے مشہور کردار شکیل سے۔ کروڑوں لوگ عابد ...

مزید پڑھیے

اچھے ماموں کا چائے خانہ

اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے۔ اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔ ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا لگتا تھا۔ اگر آپ نے کراچی میں ...

مزید پڑھیے

ایک کہانی کا بوجھ

بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں۔ عرفی چچا کی کہانی کا بوجھ۔! عام طور پر کہانیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔ لکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک نشہ ہوتی ہیں۔ ایک سرور۔ ایک خواب کی سی کیفیت جس میں اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صبح شام، کوئی خیال پرورش پاتا رہتا ہے، کچھ منظر بنتے بگڑتے ...

مزید پڑھیے

بنجر، بے رنگ زندگی والا

یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں۔ اور اگر آپ نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جلدی کی وجہ کیا ہے، تو میں آپ کا سر توڑ دوں گا۔ مجھے ایسے پڑھنے والے زہر لگتے ہیں جو ہر چیز کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ ہر کردار، ہر واقعے، ہر صورتحال کے پس منظر میں چھپی باتوں کا راز پانا چاہتے ہیں۔ لطف ...

مزید پڑھیے

مہرو ماہ اوراختر، آسماں انہی سے ہے

تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔ ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پُر اعتماد نظر آؤ۔ کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی خاموشی۔ تنویر کو اپنا کراچی ...

مزید پڑھیے

ایک، دو، تین، چار

سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آجائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ کوئی نام ذہن کے افق پر پل بھر کو ...

مزید پڑھیے

کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر

ادھیڑ عمر کا وہ آدمی بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ یہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے، ذرا فاصلے پر واقع وہ بس اسٹاپ تھا جہاں سے لانڈھی اور کورنگی کی بسیں روانہ ہوتی تھیں۔ یہاں ارجنٹ تصویریں بنا کر دینے والے فوٹو گرافروں کی اور کھلی چائے فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں۔ انہی کے ...

مزید پڑھیے

بھائی صاحب

پھر وہی خوف تھا۔۔۔! بھائی صاحب کا خوف۔۔۔!! وہ امریکہ چلے گئے تھے تو ارشد اس خوف کو یوں بھول گیا تھا جیسے آدمی گزری پریشانیوں کو فراموش کردیتا ہے۔ پندرہ برس تک وہ ایک آزاد آدمی تھا۔ بے فکر، بے خوف آدمی۔ بھائی صاحب بالکل ابا جی ٹائپ تھے، لیکن ان سے زیادہ خطرناک۔ ان کی عقابی نگاہیں ...

مزید پڑھیے

خوف

انتہائی نگہداشت کے کمرے میں موجود روشنی کے سبب اسے آنکھیں کھولنے میں دشواری محسوس ہورہی تھی، تاہم اس نے اپنی نیم وا آنکھوں کو آہستہ سے کھولا، بالکل اس طرح جیسے کوئی نومولود دنیا کو پہلی بار دیکھتا ہے۔ “آپ کو مبارک ہو، آپ کا آپریشن کامیاب ہوا ہے۔” یہ کمرے میں موجود نرس کی میٹھی ...

مزید پڑھیے
صفحہ 222 سے 233