مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر

ماسٹر کے گھر کے قریب پہنچ کر ڈرائیور نے گاڑی اندر گلی میں لے جانے سے انکار کردیا۔
’’پچھلی بار کس نے سالن پھینک دیا تھا صاحب جی۔‘‘ اس نے حتی الامکان ادب کے ساتھ کہا۔۔۔ ’’اور اس سے پچھلی بار تین چھوکرے۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ منظر نے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور یہ چھوکرے کیا ہوتا ہے۔؟۔۔۔ ذرا دیکھ بھال کر بولا کرو۔۔۔‘‘
ڈرائیور خاموش بیٹھا رہا۔
ٹائی اور کوٹ سے نجات پاکر منظر کار سے باہر نکل آیا۔ تیز، چبھتی دھوپ اور کراچی کی مخصوص نم ہوا۔ وہ جب بھی ماسٹر سے ملنے آتا تھا، ڈرائیور کسی نہ کسی بہانے ناگواری کا اظہار کردیتا تھا۔ اور منظر ہر بار اپنے غصے پر قابو پالیتا تھا۔ یہ بات بھی اسے ماسٹر نے ہی سکھائی تھی۔ غریب آدمی کے غرور پر ناراض مت ہوا کر پیارے۔ اس نے کہا تھا۔ سالا غرور کی بیساکھیوں کے سہارے ہی خوش رہنے کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے۔ صاف ستھرے کپڑوں پر، جمعہ کی نماز پڑھ لینے پر، گھر میں گوشت پکنے پر، بچے کی سیکنڈ ڈویژن پر، ہر چیز پر اس کی گردن اکڑ جاتی ہے۔ اس پر بُرا نہیں ماننا چاہئے۔
گلی کے کونے پر اب ایک نیا احاطہ نظر آرہا تھا۔ بلاکوں سے بنی دیوار پر پلستر کے بغیر ہی سفیدی کردی گئی تھی۔ ہر کوارٹر والا زیادہ سے زیادہ جگہ گھیر لینے کی فکر میں تھا۔ قبضے بڑھتے جارہے تھے۔ وہ پیلے رنگ کے سرکاری کوارٹر ان پھیلتے، بڑھتے احاطوں کے اندر کہیں غائب ہوگئے تھے جہاں اس نے اپنا سارا لڑکپن گزارا تھا۔
وہ بائیں جانب کی پہلی گلی میں مڑ گیا۔ کسی اِرادے کے بغیر۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ یہ گلیاں، یہ علاقہ اسے یوں یاد تھا جیسے ہتھیلی کی لکیریں۔ چالیس برس گزرنے کے باوجود، اتنی تبدیلیوں کے باوجود وہ ان کوارٹروں کے درمیان تنگ گلیوں میں، گٹر کے ڈھکن پھلانگتا، کیچڑ سے بچتا، نالیوں کو عبور کرتا، یوں آگے بڑھ سکتا تھا جیسے یہیں رہتا ہو۔
ماسٹر کے کوارٹر کا دروازہ اسی پردے کے پیچھے چھپا ہوا تھا جو گزشتہ بیس برسوں کے دوران بارشوں اور دھوپوں اور میلے ہاتھوں اور گرد کے جھکڑوں کا سامنا کرتے کرتے ایک میلی، بدوضع چادر بن چکا تھا۔
منظر نے پہلے گھنٹی کو دو تین بار دبایا۔ پھر پردہ ہٹا کر دروازہ دھڑ دھڑایا۔
لمحہ بھر بعد اندر سے کسی عورت نے کرخت آواز میں پوچھا۔ ’’کون۔؟‘‘
’’قیصر صاحب ہیں۔ ؟‘‘ منظر نے بند دروازے کو مخاطب کیا۔ ’’میں۔۔۔ منظر ہوں۔‘‘
کرخت آواز نے کہا۔ ’’باتھ روم گیا ہوا ہے۔ ابھی آجائے گا۔‘‘
وہ یقیناًماسٹر کی بیوی تھی۔ منظر نے اندازہ لگایا۔ ہربار وہ ایسی ہی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتی تھی۔ ماسٹر کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ شاید وہ عادی ہوگیا ہوگا۔ آدمی پچاس سال کی عمر میں ہر زیادتی کا عادی ہوجاتا ہے۔
منظر نے کوارٹروں کی قطار پر نگاہ ڈالی۔ ماسٹر کا کوارٹر سب سے خستہ حال نظر آتا تھا۔ چالیس سال پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ ۔۔۔ مگر چالیس سال پہلے سوچنے کی فرصت ہی کس کے پاس تھی۔ منظر نے میلے پردے کو دیکھا اور دل ہی دل میں ہنسا۔ چالیس سال پہلے تو زندگی کا ذائقہ ہی کچھ اور تھا۔ ماسٹر کی اماں کے زمانے میں ایسا میلا پردہ کوارٹر کے قریب بھی نہیں آسکتا تھا۔ چپلیں صحن میں اتارنی پڑتی تھیں اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ پلنگوں پر بے داغ سفید چادریں۔ چوڑی چوڑی لال نیلی پٹیوں والی بڑی دری۔ تام چینی کی پلیٹیں۔ اور مٹی کی ہانڈی سے اٹھتی گرم شوربے کی خوشبو۔
ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور ماسٹر نمودار ہوا۔
وہ پہلے سے زیادہ کمزور لگ رہا تھا اور اس کے دُبلے پتلے سیاہی مائل چہرے پر ہڈیاں بھی زیادہ ابھری ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور ایک پُرجوش توانائی تھی۔
’’ابے اتوار کے روز۔ ؟‘‘ ماسٹر ہنسا۔ ’’اتوار کو تو تجھے ہفتے بھر کی کمائی کا حساب کرنا ہوتا ہے سیٹھ۔‘‘
وہ گلے ملا تو منظر نے اس کے لاغر جسم کی ہڈیوں کی چبھن محسوس کی۔
’’جاہل ماسٹر، سیٹھ لوگ کوئی کام نہیں کرتے۔ ملازم کرتے ہیں سارا حساب کتاب۔‘ ‘
ماسٹر نے قہقہہ مارا۔ ’’کیا فٹ بات کہی ہے پیارے۔ خوش رہ۔ ‘‘
پھر وہی گلیوں کا سفر تھا۔ کوارٹروں کے سینے میں اندر اترتی گلیاں۔ ماسٹر نے برسوں سے۔۔۔ بیس پچیس برسوں سے کبھی اسے گھر کے اندر آنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ ہربار وہ اسی طرح چل پڑتے تھے۔ منظر نے کبھی اس کی بیوی کو نہیں دیکھا تھا۔ بچوں کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ ماسٹر کا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی۔ بیٹا بجلی کمپنی میں ملازم ہوچکا تھا۔ بیٹی شاید بی اے کرچکی تھی۔ کبھی کبھی منظر کو یہ سب بہت عجیب لگتا تھا۔ چالیس برس پرانے دوست، جو ایک دوسرے کے گھر والوں کی صورتوں سے آشنا نہ تھے۔
نیم دائرے میں گھومتی پتلی گلی ختم ہوئی تو صلاح الدین ایوبی ہوٹل آگیا۔ دیوار پر ایک بہت بڑے فریم میں صلاح الدین ایوبی کا پوسٹر آویزاں تھا۔ گھوڑا، تلوار اور صلاح الدین ایوبی۔ تصویر کے سارے رنگ اڑ چکے تھے اور صلاح الدین ایوبی کی تلوار اب ایک سرمئی ڈنڈے جیسی لگتی تھی۔ ساتھ ہی ایک پوسٹر شاہ رُخ خان کا تھا، ایک مادھوری ڈکشٹ کا۔ اور دو چھوٹے چھوٹے فریم۔ یہاں ملازمین کو روزانہ اجرت دی جاتی ہے۔ ہوٹل میں بیٹھ کر سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ کرسیاں وہی پرانی تھیں۔ اور میزیں بھی۔
کاؤنٹر کے پیچھے سے ایوب کالا نکل آیا۔ ’’آؤ، آؤ، آج تو شہزادہ آیا ہے۔۔۔ بڑے دن بعد شکل دکھائی ہے بھئی۔۔۔‘‘
’’بس یار، کام دھندے میں مصروف رہتے ہیں۔ کیا کریں۔۔۔‘‘
ایوب کالا بولا۔ ’’صحیح کہہ رہا ہے تُو۔۔۔ اس سسرے شہر میں ہر شخص پھنسا پڑا ہے۔ او ر تُو تو پھر بھی سال چھ مہینے میں آجاتا ہے۔اپن تو نکل ہی نہیں پاتے ہیں اس کتے کام سے۔ اچھا یہ بتا، کیا حال ہے۔؟ سنا ہے بڑا ٹائٹ قسم کا ہوٹل بنا لیا ہے تونے۔۔۔؟ بڑا والا لونڈا بتا رہا تھا ایک دن۔ دوستوں کے ساتھ گیا تھا تیرے ہوٹل۔‘‘
’’کب۔؟‘‘ منظر نے کہا۔
’’دو تین مہینے پہلے۔ بتا رہا تھا، ایک سے ایک گاڑیوں کی لائنیں لگی رہتی ہیں۔ میں نے پوچھا، منظر چچا سے ملا کہ نہیں، تو ٹال گیا۔ بولا، وہ شاید تھے ہی نہیں۔ میں نے کہا، ابے وہ تیری طرح نہیں ہے کہ اپنے ہوٹل پر نہ بیٹھے۔ یوں کہہ کہ تجھے شرم آرہی تھی سلام کرتے ہوئے۔ خوب سنائیں سالے کو۔۔۔‘‘
ماسٹر نے کہا۔۔۔ ’’زیادہ مت سنایا کر اولاد کو۔ کسی دن جواب مل گیا تو چھٹی ہوجائے گی۔‘‘
ایوب کالا ساکت کھڑا رہ گیا۔
ماسٹر ان ایکشن۔ منظر مسکرایا۔ سالا جملہ نہیں، بھالا مارتا ہے۔
کاؤنٹر کی طرف جاتے جاتے ایوب کالا دھیمی آواز میں بولا۔ ’’تھوڑی بہت تو سنانی پڑتی ہیں یار۔۔۔‘‘
دور ایک میز پر کچھ مزدور ٹائپ لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ ان کے ساتھ والی میز پر تین لڑکے سرجوڑے سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے اور کنکھیوں سے منظر کو دیکھ رہے تھے۔ منظر جانتا تھا، وہ کیا کہہ رہے ہوں گے۔ انہی کوارٹروں سے اٹھ کر دولت مند بن جانے والا شخص، جو اپنے ماضی کو نہیں بھولا۔ اس کے ہوٹل اور اس کی گاڑی اور اس کی شان وشوکت کے بارے میں مبالغہ آمیز انکشافات۔ ابے، چونتیس کے ایک میں رہتا تھا۔ دوسری والی گلی میں۔ ابا بتاتے ہیں پڑھائی میں بہت تیز تھا۔ ان کوارٹروں میں رہنے والے ہیروز کی تلاش میں رہتے تھے۔ مشہور لوگ، مقبول لوگ، جوکئی دن تک گفتگو کا موضوع بن سکیں۔ خود منظر کو آج تک بہت سے لوگ یاد تھے۔ ٹی وی کا ادا کار ظہور احمد تھا جو اپنے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ اور گلوکار ایم کلیم، جوذرا آگے رہتا تھا۔ برسوں پہلے ایک شام کر کٹر نذیر جو نیئر نے ان کی پچ پر بالنگ کرائی تھی۔ سرخ گیند کی ناقابل یقین آف اسپن۔ پھر ریڈیو پاکستان کا وہ صدا کار اور گلوکار تھا۔ صادق الاسلام۔ منظر کو سب لوگ یاد تھے۔ اور وہ جوش وخروش بھی، جو ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے سب چہروں پر رقص کرتا تھا۔
ماسٹر نے دو مسکا بند منگوائے۔ اور دودھ پتی۔
’’مجھے پتا ہے۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ ’’تیری جان نکل رہی ہوگی مسکا بند دیکھ کر۔ تجھے اپنا کولیسٹرول یاد آرہا ہوگا جس کی وجہ سے تو صبح دوپہر شام گھاس کھاتا رہتا ہے۔ پر جان من، یہ نرم، ملائم بند اور یہ نیوٹاؤن مکھن کی تہہ اور یہ گرم چائے۔۔۔ اسے کھائے بغیر زندہ رہنا زندگی تو نہیں ہے۔‘‘
منظر ہنسا۔ ’’تیس سال پہلے تو کلیجی کے بارے میں یہی کہتا تھا۔ وہ جو توے پر بھون کر۔۔۔‘‘
’’ابے ہاں۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ ’’وہ بھی طوفان ہوتی تھی یار۔۔۔‘‘
’’اور اس سے پہلے یعقوب بھائی کے گولے گنڈے کے بارے میں۔۔۔‘‘
ماسٹر نے قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا۔ ’’تجھے تو بیوی ہونا چاہئیے تھا۔ اتنی پرانی پرانی باتیں پوری کمینگی کے ساتھ یاد رکھتا ہے تو۔ یا پھر تاریخ دان ہونا چاہئیے تھا۔۔۔‘‘
’’تاریخ تجھے کبھی معاف نہیں کرے گی ماسٹر۔‘‘ منظر نے کہا۔ ’’تو نے میری زندگی کا پہلا کالا چشمہ توڑ دیا تھا۔ ماموں امریکہ سے لائے تھے وہ چشمہ۔‘‘
’’تیرے ماموں خالی ہاتھ آئے تھے امریکہ سے۔ بولٹن مارکیٹ سے خریدے تھے سارے تحفے انہوں نے۔ اور تاریخ تجھے بھی معاف نہیں کرے گی بیٹا۔ تونے میرا نام ماسٹر رکھا تھا۔ تو جلتا تھا مجھے ہروقت پڑھتا لکھتا دیکھ کر۔ آج ساری دنیا مجھے ماسٹر کہتی ہے۔ ایک اپر ڈویژن کلرک کو۔ گلی کے لونڈے ماسٹر صاحب کہہ کر سلام کرتے ہیں۔ اور مجھے اندھا مت سمجھ۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ تو میرے مسکا بند کا چھوٹا والا پیس کھا رہا ہے۔۔۔‘‘
کوئی تازگی کی لہر تھی جو منظر کو شرابور کرتی جاتی تھی۔ مہینوں کا زنگ اتارتی جاتی تھی۔ بے کیفی کا اور پژ مردگی کا اور اداسی کا زنگ۔ ایک مرجھایا ہوا پودا انگڑائی لے کر کوئی سرسبز چولا پہن رہا تھا۔ اس نے سرجھٹک کر قہقہہ لگایا۔ چھ سات ماہ کے دوران پہلا بھرپور قہقہہ۔
’’اچھا۔ اب بات بتا۔‘‘ ماسٹر نے چائے کا گھونٹ لے کر کہا۔ ’’کیا پریشانی لاحق ہے تجھے۔؟‘‘
منظر دم بخود رہ گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا۔ ’’ایسی کوئی خاص بات تو نہیں ہے۔۔۔‘‘
ماسٹر نے کہا۔ ’’دوطرح کی ہوتی ہیں پریشانیاں۔ ایک تو روز مرہ کی پریشانی ہوتی ہے۔ جیسے میں پریشان ہوں کہ بجلی کا بل زیادہ آگیا ہے، اس کی قسطیں کرانی ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے سالانہ انکریمنٹ رُکوا دی ہے۔ موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر بالکل ختم ہوچکا ہے۔ یا جیسے تو پریشان ہوتا ہوگا۔ ایکسائز والا زیادہ رشوت مانگ رہا ہے۔ ڈرائیور پیٹرول کی جعلی رسیدیں لارہا ہے۔ بالٹی گوشت بنانے والا کاریگر بھاگ گیا ہے۔ یہ پریشانیاں تو عام پریشانیاں ہیں۔ ان پر ٹائم ضائع کرنا بے کار بات ہے۔ پر تیر ا منہ تبا رہاہے کہ معاملہ کوئی بمباٹ ٹا ئپ کا ہے ۔ ملا ہاتھ ۔ صحیح کہہ رہا ہوں نا۔؟‘‘
منظر کو دس برس پرانی بات یا د آئی۔ ماسٹرنے اس وقت بھی اس کے چہرے سے بھا نپ لیا تھا کہ معاملہ سنگین ہے۔خلع کامطالبہ واقعی سنگین معاملہ تھا اور بات بہت آگے بڑھ چکی تھی ۔ماسٹر نے اسے پسپاہوجانے کا مشورہ دیاتھاجس پر منظر بھڑک اٹھاتھا ۔ ماسٹر کی باتوں نے اس کے دل میں گہری خراشیں ڈال دی تھیں ۔ اس نے کہاتھا، غلطی تیری ہے پیارے ، تیرے انجن کی ٹیوننگ ایک دم آؤٹ ہے ۔توغریب آدمی ہے جسے مقدرنے دولتمند بنا دیاہے۔ اور وہ خاندانی امیرہے جسے پیسہ بے دردی سے خرچ کرنے کی اور آزاد رہنے کی اور اپنی مرضی چلانے کی عادت ہوتی ہے۔ تواب کوارٹر میں نہیں رہتا ، تجھے ان پیسے والوں کے رنگ ڈھنگ سیکھنے ہوں گے کیونکہ تجھے اب وہیں رہنا ہے۔برداشت کرنے کی عادت ڈال،سمجھا۔؟ اور آنکھیں بند رکھنے کی بھی ۔ ورنہ منہ کے بل گرے گااور سب تا لیاں بجائیں گے۔ اس بیوی کو چھوڑدے گاتودوسری کیا آسمان سے لائے گا۔؟وہ بھی ایسی ہی ہوگی۔انہی بنگلوں سے آئے گی۔اور بھی بہت کچھ کہا تھا ماسٹر نے ۔ کڑوی باتیں ۔زہرمیں بجھے جملے۔
ماسٹر نے کہا ۔ ’’کیا سوچ رہا ہے بے۔؟‘‘
’’سوچ رہا ہوں تو کتنا ۔۔۔‘‘
ماسٹر ہنسا ۔’’سب یار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ یارکی نظر صرف نظرنہیں ہوتی پیارے ۔ایکسرے ہوتی ہے۔‘‘
کبھی کبھی منظر کو ماسٹر کی باتوں پرحیرت ہوتی تھی ۔ وہ بچپن سے ایسا ہی تھا۔کھردرامگردانش مند ۔ یہ دانائی اس نے صرف زندگی سے حاصل نہیں کی تھی ،ان بوسیدہ،سیکنڈہینڈکتابوں سے بھی جمع کی تھی جو ریگل چوک پر ہر چھٹی کے دن فروخت ہوتی تھیں ۔ مقدرنے اسے ایک سرکاری محکمے کایوڈی سی بنا دیاتھا اور تنگ دستی نے اسے سنبھلنے کا اور سکھ کا سانس لینے کا موقع ہی نہ دیاتھا مگر ماسٹر نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
منظر نے کہا۔’’مسئلہ ماہ نور کاہے یار۔۔۔‘‘
ماسٹر اچھل پڑا ۔’’گڑیا کا ۔ ؟اسے کیا ہوا۔؟‘‘
’’ابے ، کچھ نہیں ہوا اسے ۔‘‘منظر نے کہا۔’’بس ، ٹینشن کھڑی کررکھی ہے اس نے ۔‘‘
ماسٹر نے کہا۔ ’’بیٹیاں تو ساری عمر کی ٹینشن ہوتی ہیں پیارے ۔ جانتا ہے کیوں ۔ ؟ کیونکہ ہم ان سے محبت کرنا نہیں چھوڑتے۔ وہ شادیاں کرلیتی ہیں،بچوں کی مائیں بن جا تی ہیں، ان کے بچے جوان ہوجاتے ہیں ، مگر سالی ٹینشن ختم نہیں ہو تی ۔ خیر، تو بڑا ہوگاتو سب سمجھ جائے گا ۔‘‘
منظر نے جھنجھلا کرکہا ۔’’ یار، تو تقر یر کرلے پہلے۔۔۔‘‘
ماسٹر نے گھبرا کر دونوں ہاتھ جوڑدےئے ۔’’اچھا ، میرے باپ۔۔۔اب نہیں بولوں گا۔۔۔چل، آگے بتا۔‘‘
’’وہ شادی کرنا چاہتی ہے۔’’منظر نے کہا۔ ’’ابھی بیس سال کی بھی نہیں ہوئی ہے ۔ ایک ہنگا مہ کھڑا کررکھا ہے اس نے گھر میں۔ تین دن سے کسی سہیلی کے گھر پر ہے ۔ میں چاہتا تھا کہ وہ گریجویشن کرے ۔ پھر سال دوسال کے لئے انگلینڈ چلی جا ئے اور ماسٹرز کرے ۔ مگراس کے دماغ پر شادی کا بھوت سوار ہے۔۔۔‘‘
ماسٹر بالکل ساکت بیٹھا تھا ۔ کسی پتھر کے بت کی طرح ۔
منظر نے کہا ۔’’لڑکا اس کا کلاس فیلوہے۔چوڑی دار پاجامے جیسی پتلونیں پہنتاہے ۔ہاتھوں میں رنگ برنگے کڑے۔ لپ اسٹک لگا تاہے۔ایک دم زنانہ ۔فیملی بہت پیسے والی ہے۔باپ نے پچیس سال پہلے لائٹ ہاؤس پر دکان کھولی تھی۔سمجھ رہاہے نا۔؟ لنڈا بازار میں۔ پرانے کپڑے بیچتا تھا ۔ اب بھی یہی کام چل رہاہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر۔ پورے پورے کنٹینر آتے ہیں پرانے کپڑوں کے۔ ادھر حاجی کیمپ میں ان کے دو بہت بڑے وئیر ہاؤس ہیں۔ سارے مال کی چھانٹی ہو تی ہے۔ خراب مال کراچی کی مارکیٹ میں۔ اور ستھرا مال جاتاہے بنکاک ،ہانگ کانگ اور نہ جانے کہاں کہاں۔۔۔‘‘
ماسٹر بدستور ساکت بیٹھاتھا۔
منظرنے کا ؤنٹر کی جانب دیکھا اور اشارہ کیا۔ ذراسی دیر میں ایک بچہ ان کے سامنے دوکپ چائے پٹخ کرچلا گیا۔
ماسٹر بولا ۔ ’’بس ۔؟ یا ابھی باقی ہے اسٹوری۔‘‘
منظر نے گرم چائے کاگھونٹ بھر کرکہا۔’’تو مجھے اچھی طرح جانتا ہے یار۔ میں کوئی تنگ دل ،تنگ نظر باپ نہیں ہوں۔ مگر لبرل ہونے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کوئی باپ اولاد کی ۔۔۔ اور پھر بیٹی کی دھمکیاں برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے کہہ دیاہے کہ ۔۔۔‘‘
ماسٹر نے ہاتھ اٹھاکر اسے روک دیا۔’’اسٹوری کو خواہ مخواہ پھیلا نے کی کوشش نہ کر۔میں سمجھ گیاہوں تیری بات۔‘‘
منظرکو ماسٹر کا لہجہ کچھ عجیب سالگا ۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی جو کرختگی محسوس ہوتی تھی۔
کچھ دیر خاموشی چھا ئی رہی۔
ماسٹر چھت کو دیکھتا رہا اور اپنی لمبی ، سانولی انگلیوں سے میز پر طبلہ بجاتا رہا۔یوں جیسے کہیں دور بجتی کوئی دھن سن رہاہو۔مگر منظر جانتا تھا کہ وہ کسی سوچ میں غرق تھا ۔ یہ اس کا خاص انداز تھا۔
ہوٹل کے کچن سے ایک چھنا کے کی آواز آئی ۔ شاید بر تن دھونے والے لڑکے نے کوئی کپ توڑ دیا تھا۔
کاؤنٹر پر بیٹھا ایوب کالا چلایا۔ ’’توڑ دے۔ سارے برتن توڑ دے۔ تیری ماں جہیز میں لائی تھی نا۔ سب توڑ دے۔‘‘
ما سٹر جیسے کسی گہر ی نیند سے بیدار ہوگیا ۔ اس نے کہا ۔ ’’دیکھ پیارے ۔ کچھ باتیں تو تیر ی بالکل چریوں والی ہیں ۔ چریا سمجھتا ہے نا۔؟ لڑکا زنانہ ٹائپ ہے توکیاہوا۔؟ آج کل یہی چل رہاہے۔ بالیاں پہنتے ہیں لڑکے۔اور چوڑیوں جیسے کڑے اور ایک دم ٹائٹ قمیض۔ بیوٹی پارلر جا تے ہیں۔ٹائم بدل گیا ہے میری جان ۔ یاد ہے تجھے ، ہم لوگ بیل باٹم پتلونیں پہناکرتے تھے۔ چوبیس انچ کا پائنچا ۔ سالی پتلون غرارہ لگتی تھی لیکن ہم سارے شہر میں اکڑکر پھرتے تھے ۔ پھر جینز آگئی تھی ۔ اپن اسی لائٹ ہاؤس سے خرید تے تھے ۔ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہوتے تھے کہ کوئی جاننے والا نہ دیکھ لے ۔ تیرے ابا نے تو ایک دفعہ تیری جینز اور پرنٹڈ قمیضوں کو آگ بھی لگا ئی تھی۔۔۔‘‘
’’ہاں ،ہاں،آگے بول ۔‘‘منظر نے کہا ۔’’ داستا نیں سنانے بیٹھ جا تا ہے سالا۔‘‘
ماسٹر ہنسا ۔’’ برا لگ رہا ہے نا۔؟ گڈ۔ بلکہ ویری گڈ۔ دل خوش ہوگیا ۔اچھا ،دوسری بات یہ ہے کہ اگر لڑکے کا باپ پہلے لنڈے کے کپڑے بیچتا تھا تو اس سے کیافرق پڑتاہے، آج کروڑپتی تو بن گیا ہے نا۔ اور تو خود کیاتھا۔ ؟ تیرے گھر میں اتوار کے اتوار گوشت پکتاتھا ۔ کالج میں تیرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ۔ناولٹی سینما میں سب سے اگلی سیٹوں پر بیٹھ کر فلمیں دیکھتا تھا تو۔ یادہے نا۔؟ یا بھول گیاہے۔؟‘‘
منظر خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔
ماسٹر نے اپنے بکھرے ہو ئے بالوں کو سنوارنے کی کوشش کی، گردن کھجائی اور بولا۔’’تونے بتایانہیں لیکن میں سمجھ گیاہوں کہ تونے گھرمیں لفڑا کیاہے۔ لفڑا سمجھتا ہے نا۔؟اسٹوری تو یہ سنارہا ہے کہ گڑیا نے گھر میں ہنگامہ کررکھاہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہنگا مہ خود تونے کیاہے ۔ ابے تو سمجھتا کیوں نہیں ہے۔؟ وہاں نہیں چلتی یہ ماردھاڑ ، چیخ پکار ۔ یہاں کو ارٹروں میں ٹھیک ہے ۔۔۔‘‘
منظر نے بیزاری سے کہا۔ ’’پھر۔؟‘‘
ماسٹر نے ٹھنڈی ہوجانے والی چائے کاایک بڑا گھونٹ لیا اور بولا۔ ’’پھر یہ کہ تجھے عقل سے کام لیناہوگا۔ اب یہ مت پوچھنے بیٹھ جائیو کہ عقل کہاں سے آئے گی۔دیکھ، گڑیا ابھی غصے میں ہے اورنا سمجھ ہے۔ لیکن وہ جوان بھی ہے اور ۔۔۔اور بیٹی بھی ہے ۔! باپ کے لئے سب سے مشکل کا م بیٹی کو سنھا لنا ہوتاہے ۔ جا نتا ہے کیوں ۔؟کیونکہ بیٹی میں اس کی جان ہوتی ہے۔سالا اتنی محبت کرتا ہے بیٹی سے کہ عقل سے بالکل پیدل ہوجاتا ہے ۔ دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے مگر بیٹی کی بات آجائے بیچ میں تو خچر کی طرح ہنہنا نے لگتا ہے، دولتیاں جھاڑنے لگتا ہے ۔ سچی بات بتاؤں ۔؟ تیرا یہ جو چہرہ ہے نا، یہ تھوڑا تھوڑا خچر جیسا ہوگیاہے ۔۔۔‘‘
منظر نے جسم وجاں کی پوری قوت کے ساتھ پھٹ پڑنے کی خواہش پر قابو پایا اور کرسی سے ٹیک لگا ئے خاموش بیٹھا رہا ۔ ماسٹر کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لئے اس سے اچھی تکینک کوئی نہیں تھی ۔
ماسٹر مسکرایا۔ یوں ، جیسے مقابلہ کرنے والے کسی اچھے کھلاڑی کو داددے رہا ہو۔ پھر اس نے کہا ۔ ’’دوکام بتا تا ہوں تجھے ۔ سمجھ لے، دووارداتیں کرنی ہیں ۔ پہلے ایک واردات ۔پھر دوسری ۔ سمجھ رہاہے نا۔؟‘‘
منظر نے سر ہلایا۔
ماسٹر نے کہا ۔’’پہلی واردات تو آج ہی کر ڈال ۔ گھر جاکر بیوی سے کہہ کہ تجھے اپنی غلطی کا احسا س ہو گیاہے ۔ ایک دم دیوداس والی ایکٹنگ چاہئے۔ سمجھا ۔؟ پھر بیوی کو ساتھ لے کر گڑیا کے پاس جا ۔ آج رات ہونے سے پہلے پہلے گڑیا کو گھر میں ہو نا چاہئیے ۔ دونوں کو بتادے کہ تجھے شادی پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ گڑیا شادی سے پہلے ماسٹرز کرے گی۔بس، اس چھوٹی سی شرط پراڑجا۔ جانتا ہے ،کیافائدہ ہوگااس سے ۔؟‘‘
’’ہنگامہ دوتین سال کے لئے ٹل جا ئے گا۔‘‘منظر نے سوچتے ہوئے کہا ۔
ماسٹر ہنسا ۔ ’’ عقل کے گھوڑے ، اس سے بھی بڑا فائدہ ہوگا۔ دوتین سال میں گڑیا تھوڑی اور سمجھ دار ہوجائے گی ۔ظالم باپ کی مخالفت ختم ہوگی تو وہ اپنی آنکھوں پر لگا ضدکا چشمہ اتاردے گی۔ جوانی میں سب اڑیل گھوڑے ہوتے ہیں میری جان۔اپن بھی ایسے ہی تھے۔سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور دوتین سال میں تو دنیا بدل جاتی ہے ۔گڑیا پڑھے گی تو اس کی آنکھیں کھلیں گی۔ وہ بے شمار لوگوں سے ملے گی۔ سمجھ رہاہے نا ۔؟ ابھی وہ بس اس لونڈے کو دیکھ رہی ہے۔ تیرا کام ہے اسے دائیں ،بائیں ،اوپر ،نیچے دیکھنے کے قابل بنا نا۔ بغیر لفڑا کئے یہ سمجھانا کہ دنیا بہت بڑی ہے ۔ توجانتاہے نا ، کہ ان کو ارٹروں کے آگے بھی زندگی ہے۔صاف ستھرے علاقے ہیں اور بنگلے ہیں اور لشکارے مارتی گاڑیاں ہیں ۔ اور ان سے بھی آگے دبئی ہے اور امریکاہے اور نہ جانے کیا کیا ہے ۔یہ سب کیسے پتا چلا تجھے۔؟ تو ا س کنوئیں سے نکلا تبھی پتا چلا نا ۔؟ گڑیا بھی نکل جائے گی اپنے کنو ئیں سے ۔ تھوڑا ٹائم دے اسے۔ اور لسّی پینا شروع کر، تاکہ تیرے دماغ کی گرمی کم ہو۔ سمجھا ۔؟‘‘
منظر نے سرکھجا کر کہا۔’’ویسے میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا کہ۔۔۔‘‘
ماسٹر نے کہا ۔’’ابے تو کیا ، تیرا پورا خاندان یہ نہیں سوچ سکتا ۔ ایک ایک کو جانتا ہوں میں ۔‘‘
باہر دھوپ ڈھلنی شروع ہوگئی تھی۔
منظر نے کہا۔ ’’ٹھیک کہہ رہا ہے تو۔ میں کبھی بھی اس طرح نہیں سوچ سکتا تھا۔ آدمی اپنی زندگی کو، اپنے فیصلوں کو غیر جانب داری سے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
ماسٹر نے ایک انگڑائی لی، انگلیاں چٹخائیں اور بولا۔ ’’کیونکہ تو ایک گھامڑ آدمی ہے لہٰذا تو کبھی نہیں پوچھے گا کہ پیارے بھائی، وہ دوسری واردات کیا تھی۔؟ لہٰذا میں خود ہی بتادیتا ہوں تجھے۔ دوسری واردات یہ ہے کہ اگر دو تین سال بعد بھی گڑیا اپنے مطالبے پر قائم رہے اور وہ لونڈا بھی ڈٹا رہے تو تجھے وہ کرنا ہے جو ہر عقلمند باپ کرتا ہے۔۔۔ یعنی ان دونوں کی شادی۔!‘‘
’’شادی۔؟‘‘ منظر نے کہا۔ ’’مگر۔۔۔‘‘
’’ہاں بیٹا، شادی۔‘‘ ماسٹر نے کہا۔ ’’تین سال بعد تجھے پورا ڈرامہ کرنا ہوگا، اتنی خوشی کا اظہار کرنا ہوگا کہ سب حیران رہ جائیں۔ گڑیا بھی اور تیری بیوی بھی اور دونوں خاندان بھی۔ سمجھ رہا ہے نا۔؟ کوئی پنگا نہیں کرنا ہے۔ پنگا کرے گا تو تیرا انجام وہی ہوگا جو پشتو فلموں میں وِلن کا ہوتا ہے۔ باپ کو زندگانی ایسے ہی گزارنی ہوتی ہے شہزاد ے، ٹوپی ڈرامہ چلائے رکھنا ہوتا ہے۔ ٹوپی ڈرامہ سمجھتا ہے نا۔؟ اولاد کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ ہروقت مسکرانا پڑتا ہے۔ اِکا دُکا کوششیں کرلیتا ہے آدمی اوربس۔ کوئی گڑیا سمجھ جاتی ہے، کوئی نہیں سمجھتی۔ آدمی سالا کیا کرسکتا ہے۔؟‘‘
منظر کے دل میں کچھ کہنے کی آرزو بہت شدید تھی مگر اس نے کچھ نہ کہا۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ ماسٹر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ اندر بھڑکتی اشتعال کی آگ بالآخر بجھ جائے گی۔ تب شاید سب کچھ اسی طرح ہوگا جیسا صلاح الدین ایوبی ہوٹل میں گزرنے والی اس نرم، روپہلی دوپہر میں، اس آشنا، جانے پہچانے ماحول میں اور پرانی یادوں کے رس میں لتھڑی اس خوشگوار ملاقات میں انہوں نے سوچا تھا۔


سات آٹھ ماہ بعد منظر نے پھر اس دروازے پر دستک دی۔ میلے، بد وضع پردے کی اوٹ میں چھپے دروازے پر۔
کچھ دیر بعد اندر سے وہی کرخت آواز آئی۔ ’’کون ہے۔؟‘‘
’’وہ ۔۔۔ قیصر صاحب ہیں۔؟ میں منظر ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ منظر کسی بد تہذیبی کا انتظار کرتا رہا۔
اندر سے کچھ گھسیٹنے کی آوازیں آئیں۔ جیسے کوئی کرسی یا کوئی پلنگ کھسکا یا جارہا ہو۔ یا کچھ اور۔ منظر دل ہی دل میں مسکرایا۔ ہوساتم ہے بیوی نے ماسٹر کو باندھ کر ڈال دیا ہو۔۔۔ اور اب اسے گھسیٹ کر دروازے تک لارہی ہو۔۔۔
پھر کنڈی کھلنے کی آواز آئی۔ اور اس کے بعد دروازہ کھل گیا۔!
ماسٹر کی بیوی نے دروازے کی اوٹ سے کہا۔ ’’اندر آجاؤ۔۔۔‘‘
ایک لمحے کیلئے منظر کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اندر آجاؤ۔؟ کیا مطلب ہے۔۔۔؟ اندر کیوں آجاؤ۔۔۔؟ کیا۔۔۔ کیا ماسٹر بیمار ہے۔۔۔؟
ادھ کھلے دروازے سے اس نے ماسٹر کی بیوی کو چادر سنبھالتے، چپلیں گھسیٹتے، اندر جاتے دیکھا۔
اندر وہی بو تھی۔ ہوا سے اور دھوپ سے محروم گھروں کی بو۔ اور وہ بے ترتیبی بھی، جس کی منظر کو توقع تھی۔ دیواروں پر اور چھت پر سفیدی کی پپڑیاں جو رفتہ رفتہ ٹوٹ کر گرنے کے لیے تیار تھیں۔
منظر کسی مشینی آدمی کی طرح آہستہ آہستہ آگے چلتا گیا ۔ سو چنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ۔ ہر طر ح کے احساس سے عاری ۔صحن کے بعد برآمدہ تھا جہاں دو تین کرسیاں پڑی ہوئی تھیں ۔اور آگے دو کمرے جو نیم تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔برآمدے کے کونے میں نل کے پاس میلے کپڑوں کا ڈھیرتھا ۔منظر آخری بار اس گھر کے اندراس وقت آیا تھاجب ماسٹر کی اماں کا جنازہ اٹھایاجارہاتھا اور محلے کی عورتیں زاروقطار رورہی تھیں۔
’’قیصر۔۔۔کہاں ہے ۔؟ ‘‘ منظر نے پوچھااور اپنی آوازکی کپکپاہٹ پر حیران ہوأ۔
’’ وہ چلاگیا۔۔۔تمہارا ماسٹر۔۔۔‘‘ ماسٹرکی بیوی نے کہا ۔ وہی کرخت آواز۔اس نے چادرکو یوں لپیٹ رکھاتھا کہ صرف اس کاسانولا چہرہ نظرآتا تھا۔’’اب تو چھ مہینے ہونے والے ہیں ۔۔۔‘‘
’’کہاں چلاگیا ۔؟ ‘‘کسی اختیار کے بغیر منظر نے پوچھا۔
ماسٹرکی بیوی نے چلّا کرکہا۔’’کہا ں چلے جاتے ہیں لوگ۔۔۔؟ وہیں چلاگیا ہے وہ۔۔۔اتنی سیدھی سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ ؟۔۔۔ رانی کو مارکے چلاگیاہے۔۔۔ لالوکھیت کی کسی قبر میں جاکے سوگیاہے سؤر کا بچہ ۔۔۔‘‘ وہ دھاڑیں مار مارکررونے لگی۔
منظر کو محسوس ہورہاتھا کہ زمین شق ہوتی جارہی ہے اور وہ کرسی سمیت اندر دھنستا جارہاہے۔ کوئی بھنورتھاجو ایک جنونی رفتار سے اسے گھمائے جارہا تھا ، گھمائے جارہاتھا۔۔۔
نہ جانے ماسٹر کی بیوی نے خود پر کب قابو پایاتھا۔نہ جانے وہ خود سوچنے سمجھنے کے قابل کب ہواتھا ۔ منظر کو بس یہ یادتھا کہ وہ ہلنے جلنے کی قو ت سے محروم بدن کے ساتھ کرسی پر ترچھاپڑاہواتھا اور اس کا سرپھوڑے کی طرح دکھ رہاتھا۔
ماسٹر کی بیوی چادر لپیٹے سامنے بیٹھی تھی مگراس کی آواز جیسے کہیں دور سے آرہی تھی ۔’’۔۔۔میں نے اس سے کہاتھا کہ رشتہ برانہیں ہے۔۔۔لڑکا درزی کے پاس کام کرتاہے تو کیا ہوأ ۔۔۔کل اپنی دوکان کھول لے گا ۔۔۔پھر رانی کوبھی پسند تھا وہ لڑکا ۔۔۔مگر ماسٹر کہنے لگا،بی اے پاس بیٹی کو میٹرک پاس سے بیاہ دوں ،یہ کیسے ہوسکتاہے۔۔۔ ابھی جلدی کیا ہے۔۔۔ رانی کو ڈانٹا اس نے ۔۔۔کہنے لگا ، جس دن وہ اپنی دوکان کھول لے گا،اس دن بات کرنا ۔۔۔اس سے پہلے نہیں ۔۔۔بات تو خیرٹھیک تھی ۔میں نے بھی اس رات یہی سوچاتھا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہاتھا ۔لیکن رانی نے کچھ اور ہی سوچ لیاتھا ۔ میں فجر میں اٹھی تو رانی کی ۔۔۔رانی کی لاش پنکھے سے لٹک رہی تھی اور ۔۔۔‘‘ وہ چادر میں منہ چھپا کر پھررونے لگی ۔۔۔
منظر نے سرجھٹک کر دماغ پرچھا ئی دھندکو صاف کرنے کی کوشش کی۔اسے یہ سب کچھ غیر حقیقی لگ رہا تھا۔ جیسے ابھی آنکھ کھل جا ئے گی۔ جیسے ابھی ماسٹر کی بیوی اور یہ بوسیدہ گھر اور یہ پورا نظارہ پلک جھپکتے میں غائب ہوجائے گا ۔
ماسٹر کی بیوی نے خود پر قابو پاکرکہا ۔’’میں پاگلوں کی طرح پچھاڑیں کھارہی تھی ، چلّارہی تھی ۔۔۔میرے بیٹے کا بھی برا حال تھا ۔۔۔ مگروہ چپ تھا۔۔۔تمہارا ماسٹر ۔۔۔میں نے اسے بھی گا لیاں دیں۔۔۔ گھرمیں لوگ بھرے ہوئے تھے۔۔۔مجھے عورتیں گھسیٹ کردوسرے کمرے میں لے آئیں۔۔۔پولیس آگئی تھی۔۔۔محلے والوں نے ہی سب کچھ بھگتا ۔۔۔‘‘
آہستہ آہستہ منظر کے بدن میں دوڑتی سنسناہٹ کم ہوتی جارہی تھی ۔ اعصاب قابو میں آتے جارہے تھے۔ لیکن ایک تھکن تھی جس نے اسے بدستور جکڑرکھاتھا۔
ماسٹر کی بیوی کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں تھیں اور آنکھوں میں زندگی کی سب سے بڑی ہار کا اعتراف ۔
منظر نے کہا ۔’’اور ۔۔۔ماسٹر ۔۔۔؟‘‘
ماسٹر کی بیوی نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔’’دودن رہ سکاوہ ۔۔۔میں بے غیرت تھی، جھیل گئی ۔۔۔ مگراس کو بیٹی کا دکھ ساتھ لے گیا ۔۔۔سانس کا اٹیک ہوگیاتھا اسے۔۔۔منہ کھول کھول کرسانس لیتا تھااور اس کے سینے میں سے ایسی آوازیں آتی تھیں کہ بس۔۔۔ ڈاکٹروں نے ٹیکے بھی لگائے۔۔۔ دَم والا پانی بھی منگوایا میں نے۔۔۔ مگر اس کی حالت بگڑتی گئی۔۔۔ آخر میں تو دماغ پلٹ گیا تھا اس کا۔۔۔ ہنسنے لگا تھا زور زور سے۔۔۔ چھت کو دیکھ کر کہنے لگا تھا، مولا، پہلی واردات ہی غلط کرادی۔۔۔ باربار کہتا رہا یہی۔۔۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب وہ بچے گا نہیں۔۔۔ پھر وہ۔۔۔ پھر وہ۔۔۔‘‘
منظر اس کی ہچکیاں سنتا رہا اور خاموش بیٹھا رہا۔ اس کی آنکھوں میں ماسٹر کا چہرہ تھا اور اس کے دامن میں ہزاروں لاکھوں یادیں تھیں اور اس کے سامنے برباد ہو جانے والا یہ گھر تھا۔
نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ پانچ، دس منٹ۔ یا آدھا گھنٹہ۔
ماسٹر کی بیوی نے چونک کر کہا۔ ’’معاف کرنا۔۔۔ میں چائے۔۔۔‘‘
منظر نے ہاتھ کے اِشارے سے اسے روک دیا۔ ’’نہیں۔۔۔‘‘
ماسٹر کی بیوی نے کہا۔ ’’بیٹے نے فون کیا تھا تمہارے ہوٹل کے نمبر پر۔۔۔ سوئم کے بعد۔۔۔ میں نے ہی ڈھونڈ کرنکالے تھے کچھ نمبر۔۔۔ وہ تمہارا بہت ذکر کرتا تھا۔۔۔ شاید تم تک خبر نہیں پہنچی۔۔۔‘‘
منظر اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔
’’یہ کارڈ بیٹے کو دے دینا۔‘‘ منظر نے اپنا کارڈ بڑھایا۔ ’’کسی بھی دن آجائے۔ مجھ سے مل لے۔ مجھے آنے میں بہت دیر ہوگئی، مگر خیر۔۔۔ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
دور سڑک پر کھڑی کار کے مؤدب ڈرائیور نے اس کے لیے دروازہ کھولا۔
منظر نے کہا۔ ’’تم گاڑی لے جاؤ۔ میں آجاؤں گا۔‘‘
ڈرائیور کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ’’آپ کیسے آجائیں گے سر۔؟‘‘
منظر نے گرج کرکہا۔ ’’دفع ہوجاؤ۔۔۔ اس گاڑی سمیت میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔‘‘
ڈرائیور ہڑبڑا کر کار میں بیٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے کار نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
منظر کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔
پھر اس نے جہانگیر روڈ کی طرف چلنا شروع کردیا۔
تھلّوں پر سیمنٹ کے بلاک بنانے والے مزدوروں اور انکوائری آفس کے درختوں تلے کھیلتے میلے کچیلے بچوں اور مٹھائی کی دوکان پر سیاہ تیل میں سموسے تلتے کاریگروں اور موتی مسجد میں داخل ہوتے متقی نمازیوں میں سے کسی کو خبر نہ تھی کہ ان کے درمیان سے ایک شکستہ شخص گزررہا ہے جس کی آنکھوں سے آنسو آہستہ آہستہ بہتے جاتے ہیں اور جس کا دل دُکھ سے لبالب بھرا ہوا ہے اور جس کا ماسٹر، اس کے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔