کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر

ادھیڑ عمر کا وہ آدمی بہت دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔
یہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے، ذرا فاصلے پر واقع وہ بس اسٹاپ تھا جہاں سے لانڈھی اور کورنگی کی بسیں روانہ ہوتی تھیں۔ یہاں ارجنٹ تصویریں بنا کر دینے والے فوٹو گرافروں کی اور کھلی چائے فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں۔ انہی کے درمیان کیسٹ فروخت کرنے والے تھے، گھڑیاں ٹھیک کرنے والے اور فوٹو اسٹیٹ والے اور چاندی کے زیورات بنانے والے تھے۔ کونے پر اخبارات کا اسٹال تھا جہاں لوگ شام کے اخبارات کی چٹپٹی سرخیاں پڑھتے رہتے تھے۔ بسوں کی قطار دھیرے دھیرے آگے کھسکتی جاتی تھی اور ہر چار پانچ منٹ بعد سب سے آگے والی، پوری طرح بھر جانے والی بس روانہ ہوجاتی تھی۔
ادھیڑ عمر کا وہ آدمی اپنا سرمئی شاپنگ بیگ تھامے، جس میں سامان بھرا ہوا تھا، بہت دیر سے یوں کھڑا تھا جیسے کسی بس کا انتظار کررہا ہو۔ ہر نئی بس کے قریب آنے پر وہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کا نمبر دیکھتا تھا۔ پھر جیسے مایوس ہو کر دو قدم پیچھے ہوجاتا تھا۔
سینکڑوں لوگ اس کے اردگرد سے گزر رہے تھے۔ کام پر جانے والے، کام سے واپس آنے والے لوگ، تھکے ہوئے لوگ، زندگی سے صبح و شام لڑتے لوگ، ناتمام خوابوں کو سینوں میں دبائے لوگ، کامیابی کے آرزو مند مگر ناکامی کی دہلیز پر کھڑے لوگ، اتفاقاً مل جانے والی کسی خوشی سے زیر لب مسکراتے لوگ۔ لوگوں کا ایک ریلا تھا جو اپنی اپنی فکروں، اپنے اپنے خیالوں میں مگن چلا جارہا تھا۔ کسی کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ اس ادھیڑ عمر آدمی کی طرف دیکھے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ رک کر اس سے یہ پوچھے کہ آخر اسے کسے بس کا انتظار ہے۔ کراچی میں یہ توقع رکھنا بھی بے کار ہے کہ کوئی آپ کو غور سے دیکھے گا، آپ کے دل میں چھپے اضطراب کا سبب پوچھے گا، رک کر آپ سے کہے گا کہ آپ کو کسی مدد کی ضرورت تو نہیں ہے۔ یہ تو مارا ماری کا شہر ہے۔ بھاگتا دوڑتا شہر۔ اپنی اپنی ضرورتوں کے گھوڑے پر سوار لوگوں کا شہر۔
اسی بے پناہ ہجوم میں سے، سڑک اور فٹ پاتھ پر چلتے لوگوں کے ریلے میں سے ایک نوجوان لمحہ بھر کو اس ادھیڑ عمر آدمی کے پاس رکا اور بولا۔ ’’آیئے مشتاق انکل۔ میرے ساتھ آجایئے۔‘‘
ادھیڑ عمر مشتاق حسین کوئی سوال کئے بغیر اس نوجوان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
نوجوان تیز چل رہا تھا۔ ہجوم میں راستہ بناتا، فٹ پاتھ کے ٹوٹے حصوں کو پھلانگتا، لوگوں سے بچتا بچاتا۔ مشتاق حسین کے لئے اتنا تیز چلنا آسان نہیں تھا۔ مگر وہ آگے آگے چلنے والے نوجوان کو اس ہجوم میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اپنا شاپنگ بیگ تھامے، ہجوم کے درمیان اپنا راستہ بناتا، اس نوجوان پر نظر رکھے، آگے چلتا گیا۔
چوک سے وہ نوجوان دائیں طرف مڑ گیا۔ فلیٹ کلب کی طرف۔ جہاں بسیں آ آ کر رکتی تھیں اور لوگ اتر کر اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ یہاں لوگوں کا ہجوم ذرا کم تھا۔
تیز چلتے چلتے مشتاق حسین کا سانس پھولنے لگا تھا۔
بالآخر وہ نوجوان اس مقام پر پہنچ کر رک گیا جہاں بائیں جانب سڑک کے پار اسلحہ فروخت کرنے والوں کی قدیم دکانیں ہیں اور دائیں طرف وہ چھوٹی سی گلی جو تین سڑکوں کو کاٹتی، سیدھی گاڑیوں کے ایکسل کی مرمت کرنے والوں کے پاس جانکلتی ہے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں پہلے صرف اینگلو انڈین رہتے تھے۔ سانولے سلونے مرد اور عورتیں۔ مگر اب ان میں سے بیشتر، شہر کے دوسرے علاقوں کی جانب کوچ کرگئے تھے اور کاروباری لوگوں نے فلیٹوں میں گودام اور دفاتر بنالئے تھے۔
’’انکل۔‘‘ نوجوان نے کہا۔ ’’وہ جو سامنے ہوٹل نظر آرہا ہے۔۔۔ جہاں کتابوں کا ٹھیلہ ہے۔ وہیں ہوٹل میں ہیں بابو بھائی۔ آپ چلے جایئے۔ میں یہیں رکوں گا۔‘‘
مشتاق حسین نے سر ہلایا اور ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ بابو بھائی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ جس کا نام آفاق حسین رکھا گیا تھا، اسے اب بابو بھائی کہا جاتا ہے۔ ہسپتال کے ریکارڈ میں، بلدیہ کی فائلوں میں، اسکول کے رجسٹر میں وہ بدستور آفاق حسین ولد مشتاق حسین ہی تھا۔ مگر بابو بھائی۔؟ یہ کیسا نام تھا۔؟
ہوٹل میں داخل ہونے سے پہلے مشتاق حسین نے گلی پر ایک نظر ڈالی۔ آنے جانے والے بہت سے تھے۔ دو نوجوان ایک کھمبے کے پاس کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے مگر ان میں سے ایک کی نظر مشتاق حسین پر ہی تھی۔ نظریں ملتے ہی اس نے سر کے اشارے سے سلام کیا۔ مشتاق حسین اسے نہیں جانتا تھا مگر اس نے بھی آہستہ سے سرہلادیا۔
باہر کی نسبت ہوٹل کے اندر نیم تاریکی تھی۔ آنکھوں کو اس نیم تاریکی کا عادی ہونے میں کچھ وقت لگتا تھا۔
سات آٹھ میزیں تھیں۔ ہر میز کے گرد پرانی وضع کی چار چار کرسیاں۔ کچھ لوگ کھانا کھارہے تھے۔ کچھ چائے پینے اور باتیں کرنے میں مشغول تھے۔
مشتاق حسین کی متلاشی نظروں نے آخری، کونے والی میز پر کسی کو اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ نیم تاریکی میں ایک جانا پہچانا ہیولہ۔ وہ اسی جانب بڑھا۔
’’سلام ابّا۔‘‘ آفاق نے کہا۔
مشتاق حسین نے اسے اپنے بازوؤں میں بھرلیا۔
ذرا سی دیر کے لئے سب کچھ غائب ہوگیا۔ یہ ہوٹل، یہ علاقہ، یہ شہر۔ ذرا سی دیر کے لئے مشتاق حسین کی آغوش میں بس وہ جوان بیٹا رہ گیا جس کا سر اس کے کاندھے پر تھا اور جس کو ایک نظر دیکھنے کی آرزو مہینوں سے اس کے سینے میں ایک آگ بن کر بھڑکتی تھی۔
’’آپ کمزور نظر آرہے ہیں ابّا۔‘‘ آفاق نے اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی۔؟‘‘
مشتاق حسین نے کہا۔ ’’میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔‘‘
’’اماں کیسی ہیں۔؟‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’اور گڑیا۔؟‘‘
’’دونوں ماں بیٹی ٹھیک ہیں۔‘‘ مشتاق حسین مسکرایا۔ ’’تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔‘‘
آفاق بالکل پہلے جیسا ہی تھا۔ مشتاق حسین اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔
وہ بولا۔ ’’میں بھی آپ لوگوں کو بہت یاد کرتا ہوں۔‘‘
مشتاق حسین نے وہ سرمئی شاپنگ بیگ اس کے سامنے رکھ دیا۔ ’’تمہارے لئے چیزیں بھجوائی ہیں انہوں نے۔ ٹی شرٹس ہیں۔ اور پتا نہیں کیا کیا ہے۔ گڑیا نے کہا تھا، بھائی سے کہہ دیجئے گا، ایڈوانس سالگرہ مبارک۔‘‘
آفاق کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
پھر اس نے گردن گھما کر بائیں جانب دیکھا اور نگاہوں سے جیسے کوئی اشارہ کیا۔ دوسرے کونے پر ایک میز کے گرد بیٹھے تین لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور تیزی سے ان کی طرف آیا۔
آفاق نے شاپنگ بیگ اسے تھمادیا اور یوں بولا جیسے حکم دے رہا ہو۔ ’’گاڑی میں رکھوادو۔‘‘
وہ آدمی شاپنگ بیگ لے کر باہر نکل گیا۔
مشتاق حسین نے کوشش کی کہ اس کی حیرت ظاہر نہ ہو۔ اس کے لوگ باہر گلی میں ہی نہیں، ہوٹل کے اندر بھی موجود تھے۔ جیسے حفاظت کا کوئی نظر نہ آنے والا حصار ہو۔
’’اب پولیس تو گھر پر نہیں آتی۔؟‘‘ آفاق نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔ ’’جنوری سے نہیں آئی۔ آخری بار جو سب انسپکٹر آیا تھا اس سے میں نے کہہ دیا تھا کہ ہمیں کچھ پتا نہیں ہے اپنے بیٹے کے بارے میں۔ جو کچھ معلوم تھا، بتادیا ہے۔ اب اور کیا بتائیں، کہاں سے بتائیں۔؟ میں نے سلیم بھائی کا بھی حوالہ دے دیا تھا کہ میں ان کا کزن ہوں۔ میڈیا کے آدمی ہیں وہ۔ میرا خیال ہے وہ سمجھ گیا کہ اب ہمیں مزید تنگ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں ، ابّا۔‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’انہیں سمجھانا پڑتا ہے۔ اس سب انسپکٹر کو بھی بالآخر سمجھا دیا گیا تھا کہ گھر والوں کو بے مقصد تنگ کرنے کا انجام اچھا نہیں نکلے گا۔‘‘
مشتاق حسین ساکت بیٹھا رہ گیا۔ چند لمحوں بعد اس نے سنبھل کر کہا۔ ’’مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ تم۔۔۔ بہرحال، اب کئی مہینوں سے پولیس کا کوئی آدمی نہیں آیا۔ ‘‘
آفاق نے کہا۔ ’’اور خاندان والے۔؟‘‘
’’خاندان والے۔!‘‘ مشتاق حسین کے لہجے میں اداسی اتر آئی۔ ’’کچھ لوگوں نے اب ملنا ملانا شروع کیا ہے۔ کئی مہینوں تک سب الگ تھلگ تھے۔ پچھلی عید کے بعد سے کچھ حالات ٹھیک ہوئے ہیں۔ تمہاری ماں تو بہت غصے میں تھی۔ کہتی تھی کہ کوئی ضرورت نہیں ہے اب تعلقات بحال کرنے کی۔ بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر راضی کیا اسے۔ خاندان سے تعلقات بالکل ختم تو نہیں کئے جاسکتے۔‘‘
آفاق نے کہا۔ ’’کئے جاسکتے ہیں، ابّا۔ آپ جسے خاندان کہہ رہے ہیں، وہ دراصل خاندان نہیں ہے۔ جو لوگ مصیبت میں، پریشانی میں آپ کے ساتھ کھڑے نہ ہوں، آپ کو تسلّی تک نہ دیں، وہ خاندان کے لوگ کیسے ہوسکتے ہیں۔؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ مشتاق حسین نے نیم دلی سے کہا۔ ’’تم غلط نہیں کہہ رہے ہو۔ پھر بھی بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ رعایت دینی پڑتی ہے لوگوں کو۔ ہوسکتا ہے وہ خوفزدہ ہوں۔ ڈرتے ہوں کہ کہیں انہیں کسی تفتیش میں شامل نہ کرلیا جائے۔ پھر اوربھی باتیں ہوتی ہیں۔ ابھی چار پانچ سال میں گڑیا بی اے کرلے گی۔ کہیں نہ کہیں شادی کرنی ہوگی اس کی۔۔۔‘‘
آفاق کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’آپ کی جاب تو ٹھیک چل رہی ہے نا، ابّا۔؟ آفس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔؟‘‘
مشتاق حسین کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’آفس کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ مالکان تو خاندانی لوگ ہیں۔ ہر حال میں ساتھ نبھانے والے۔ اور کام کرنے والے بھی ایسے ہی ہیں۔ ہر قدم پر حوصلہ دیتے ہیں۔ اسی طرح محلّے والے ہیں۔ آس پڑوس کی عورتوں نے تو ان برے دنوں میں تمہاری ماں کی ایسی دل جوئی کی ہے کہ۔۔۔‘‘
’’یہی ہوتا ہے خاندان، ابّا۔‘‘ آفاق نے آہستہ سے کہا۔ ’’یہ دفتر والے، محلّے والے، برسوں پرانے دوست، جو دن رات آپ کے ساتھ رہتے ہیں، جن سے آپ کا کوئی خون کا رشتہ نہیں ہوتا مگر جو رات کے تین بجے بھی آپ کے ساتھ ہسپتال یا تھانے یا قبرستان جانے کے لئے تیار رہتے ہیں، یہی تو آپ کا خاندان ہوتے ہیں۔‘‘
مشتاق حسین کو رفتہ رفتہ احساس ہونے لگا تھا کہ آفاق کے لہجے میں پہلے سے زیادہ اعتماد ہے۔ اس کا لہجہ دھیما تھا مگر آواز میں وہ ٹھہراؤ تھا جو زندگی کے تجربے سے آتا ہے۔
ایک ویٹر آیا اور ان کے سامنے چائے پٹخ کر چلا گیا۔
مشتاق حسین نے گرم چائے کا ایک گھونٹ لیا اور کہا۔ ’’یہ بتاؤ، یہ لوگ تمہیں بابو بھائی کیوں کہتے ہیں۔؟‘‘
آفاق نے سر جھٹک کر کہا۔ ’’بس، نام پڑ گیا ہے۔ پہلے کہتے تھے، گریجویٹ ہے، پڑھا لکھا بابو ہے۔ پھر رفتہ رفتہ سب بابو بھائی کہنے لگے۔‘‘
’’یہ لوگ تمہارا احترام کرتے ہیں۔‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔ ’’کیا تم کوئی اہم آدمی بن گئے ہو۔؟‘‘
آفاق خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ابّا۔ کوشش کریں کہ آپ کو میرے بارے میں کم سے کم معلوم ہو۔ سب سے اچھا تو یہ ہے کہ آپ کو کچھ نہ معلوم ہو۔ کراچی میں لاعلم آدمی بہت آرام سے رہتا ہے۔ جس کے پاس معلومات ہوں، وہ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔‘‘
مشتاق حسین کے دل میں دکھ کی ایک لہر اٹھی۔ یہ دھیمے مگر مضبوط لہجے میں گفتگو کرنے والا، بہت آرام سے اپنا نکتۂ نظر بیان کرنے والا، کسی بڑی کمپنی کا ایگزیکٹو بھی ہوسکتا تھا، کوئی سرکاری افسر بھی ہوسکتا تھا۔ یہ بابو بھائی کیسے بن گیا۔؟ مگر دکھ کی اس لہر کے ساتھ ایک اطمینان بھی تھا۔ آفاق بڑا ہوگیا تھا۔ بڑا اور سمجھ دار۔
’’کسی طریقے سے اپنی ماں سے بات کرلو کسی روز۔‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔ ’’وہ بہت بے قرار رہتی ہے تمہاری آواز سننے کے لئے۔‘‘
’’اماں کو سمجھا دیجئے گا، ابّا۔‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’جاکر ملنے کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مگر میں فون پر بھی بات نہیں کرنا چاہتا۔ یہ آپ لوگوں کی ہی بھلائی کے لئے ہے۔ پولیس ہی نہیں ہوتی، اور بھی بہت سے۔۔۔ بہت لوگ ہوتے ہیں۔ وہ فون کال سن سکتے ہیں، بہت کچھ پتا چلاسکتے ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور مارے گئے۔ یا گھر والوں کو مصیبت میں پھنسوادیا۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھر رکا۔ پھر بولا۔ ’’آج آپ سے یہاں ملاقات کرنے کے لئے بھی ہفتہ بھر پلاننگ کرنی پڑی ہے۔ ہر طرف لوگ موجود ہیں۔ آپ سے بھی اسی لئے بس اسٹاپ پر کھڑے رہنے، کسی بس کا انتظار کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ گھر والوں پر بہت کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ ان کا مہینوں پیچھا کیا جاتا ہے۔ آپ کو اسی وقت یہاں لایا گیا ہے جب پکا یقین ہوگیا ہے کہ کوئی آپ کے پیچھے نہیں لگا ہوا ہے۔ میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ بہت احتیاط سے چلنا پڑتا ہے، ابّا۔‘‘
مشتاق حسین نے سر ہلایا۔ ’’میں سمجھ رہا ہوں۔‘‘
کچھ دیر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھر مشتاق حسین نے کہا۔ ’’میں نے کہیں سے معلوم کروایا تھا۔ بارہ مقدمے ہیں۔۔۔ جن میں تمہارا نام ہے۔‘‘
آفاق اسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تیرہ ہیں، ابّا۔ آپ نے سلیم تایا کے ذریعے معلوم کروایا ہوگا۔ ان کے کسی رپورٹر نے بتایا ہوگا۔‘‘
مشتاق حسین نے اثبات میں سرہلایا۔ ’’ہاں مگر اتنے مقدموں سے نمٹنا مشکل کام ہوگا۔‘‘
’’کچھ مشکل نہیں ہوتا، ابّا۔ وہ تیرہ کیا، ایک سو تیرہ مقدمے بناسکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے نا وہ پہلا مقدمہ۔ وہ فائرنگ والا کیس۔ گھر سے گرفتار کیا تھا انہوں نے مجھے۔ ایک بالکل جھوٹے الزام میں۔ میں اس رات گھر سے کہیں نہیں گیا تھا۔ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ میں لانڈھی جاکر فائرنگ کیسے کرسکتا تھا۔ اس گرفتاری کے بعد ہی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ضمانت پر رہا ہوگیا تو کبھی ان کے ہاتھ نہیں آؤں گا۔‘‘
مشتاق حسین کو سب یاد تھا۔ وہ دروازے توڑ کر اندر گھسے تھے۔ آفاق کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ تھانے میں اسے بری طرح مارا گیا تھا۔ اس کے دو ناخن اکھیڑ دیئے گئے تھے۔ عدالت میں پیشی کے وقت وہ سہارے کے بغیر چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
وہ دن کسی بھیانک خواب کی طرح تھے جنہیں بھلانا آسان نہ تھا۔ دن رات تھانے کے چکر، ہر جان پہچان والے کی منت سماجت، بیوی کے اور بیٹی کے بین، اپنی بے بسی کا احساس۔ ایس ایچ او نے تیس ہزار بھی لے لئے تھے اور تشدد میں کوئی کمی بھی نہیں کی تھی۔ پھر اس کے بعد عدالت میں پیشیاں تھیں۔ جیل میں آفاق کو کھانے پینے کا سامان اور کپڑے پہنچانے کا معمول تھا۔ ہر دروازہ رشوت کی چابی سے کھلتا تھا۔ اور پھر لوگوں کی نظریں تھیں۔ کچھ طنز بھری۔ کچھ ترس بھری۔ وہ کچھ اور کہتے جاتے تھے، ان کی نظریں کچھ اور کہتی جاتی تھیں۔ کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا یار، پولیس ایسے ہی تو اٹھا کر نہیں لے جاتی۔ دیکھنے میں تو ایسا نہیں لگتا تھا۔
پھر ایک دن یہ بھیانک خواب اچانک ختم ہوگیا۔
مشتاق حسین بالکل نہیں سمجھ سکا کہ آفاق کو ضمانت پر رہا کرنے کے عدالتی احکامات کیسے جاری ہوئے۔ سٹی کورٹ کے احاطے میں اس نے کچھ لوگوں کے ساتھ آفاق کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ مشتاق حسین خوشی کے مارے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس کی ضمانت کس نے کرائی ہے۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ آفاق بس ایک دو دن ہی گھر پر رکے گا اور اس کے بعد ایک نظر نہ آنے والی دنیا میں چلا جائے گا۔ کسی دھند میں چھپ جائے گا جہاں اس سے رابطہ کرنا، اسے دیکھنا، بہت مشکل ہوگا۔ تقریباً ناممکن۔ بس آدھی ادھوری اطلاعات آتی رہیں گی۔
ویٹر آیا اور چائے کے کپ سمیٹ کر لے گیا۔
’’یہ جو تیرہ مقدمے ہیں۔‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔ ’’یہ سب جھوٹے ہیں۔؟‘‘
آفاق کچھ دیر خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر تذبذب تھا۔ پھر وہ بولا۔ ’’تیرہ میں سے سات مقدمات جھوٹے ہیں۔!‘‘
مشتاق حسین کو ایک دھچکا سا لگا۔ جب سلیم بھائی نے اسے بتایا تھا کہ آفاق پر قتل کرنے کے، ٹارگٹ کلنگ کے، دہشت گردی ایکٹ کے مقدمات ہیں تو اس نے دل ہی دل میں جھوٹے مقدمات قائم کرنے والوں کو بددعائیں دی تھیں۔ آفاق اور قتل۔! آفاق اور دہشت گردی۔! یہ تصور بھی اسے مضحکہ خیز لگتا تھا۔ مگر اب۔۔۔
کچھ دیر چپ رہنے کے بعد مشتاق حسین نے کہا۔ ’’یہ تم کیا کررہے ہو۔؟ کس راستے پر جارہے ہو۔؟‘‘
آفاق نے کہا۔ ’’میں آپ کو شاید سمجھا نہیں سکوں گا، ابّا۔ آپ ایک بالکل الگ دنیا میں رہتے ہیں۔‘‘
’’کون سی الگ دنیا۔؟‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔ ’’میں تو اب تک یہ سمجھتا آیا تھا کہ تم کسی جدوجہد کا حصہ ہو۔ کسی نظریہ پر یقین رکھتے ہو اور۔۔۔‘‘
’’آپ ٹھیک سمجھتے ہیں۔‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’مگر اس کے بعد جو کچھ ہے، وہ بہت پیچیدہ ہے۔۔۔‘‘
’’جہاں دہشت گردی جائز ہوجاتی ہے۔‘‘
آفاق نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’دہشت گردی کیا ہوتی ہے، ابّا۔؟ اگر میں کسی کی گولی سے ہلاک ہونے سے پہلے اسے مار ڈالوں تو یہ دہشت گردی بن جاتی ہے۔؟‘‘
’’کسی بھی انسان کو بلاسبب ہلاک کرنا دہشت گردی ہے۔‘‘ مشتاق حسین نے کہا۔
’’تو پھر حکومت دہشت گرد نہیں ہے۔؟‘‘ آفاق نے تلخی سے کہا۔ ’’اور یہ درجن بھر خفیہ ادارے۔؟ اور یہ مذہب کے نام پر قیامت ڈھانے والے۔؟ اور پولیس۔؟ آپ کو یاد ہے نا، میرے ساتھ تھانے میں کیا ہوا تھا۔؟ دہشت گردی کچھ نہیں ہوتی، ابّا۔ دہشت گردی صرف ایک لیبل ہے۔ ایک ٹھپّہ۔ ان احمق لوگوں کے لئے جو ہمیشہ پروپیگنڈے کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ طاقت، خفیہ ایجنسیوں اور ریاست کے پاس ہے۔ یہ لوگ جس کو چاہتے ہیں دہشت گرد بنادیتے ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں مجاہد بنادیتے ہیں۔ ایمانداری سے بتایئے، ابّا۔ حکومت سے لڑنا دہشت گردی ہے تو یہ مقبوضہ کشمیر والے اور فلسطین والے اور افغانستان والے دہشت گرد کیوں نہیں ہیں۔؟‘‘
مشتاق حسین نے کہا۔ ’’مجھ سے ایسے سوال مت کرو، بیٹا۔ مجھ سے تو یہ پوچھو کہ آپ رات کو دیر تک کیوں جاگتے رہتے ہیں۔؟ کیا سوچتے رہتے ہیں گھنٹوں۔؟‘‘
آفاق ساکت بیٹھا رہ گیا۔
مشتاق حسین نے کہا۔ ’’میرے چہرے کو دیکھو۔ غور سے دیکھو اور بتاؤ، یہ ایک تھکے ہوئے آدمی کا چہرہ ہے یا نہیں۔؟ شکست کھا جانے والے آدمی کا چہرہ۔ مجھے فلسطین کی اور افغانستان کی کیا خبر ہوگی۔ میں تو تمہیں یہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے آج گیارہ مہینے اکیس دن بعد اپنے بیٹے کو دیکھا ہے۔ کوئی خوف ہے جو مجھے سونے نہیں دیتا، چین سے بیٹھنے نہیں دیتا کہ تم نہ جانے کہاں ہوگے، کس حال میں ہوگے۔ ایسے ایسے خیالات آتے ہیں۔۔۔ میں کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’مجھے اندازہ ہے، ابّا۔‘‘ آفاق نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’لیکن یقین رکھئے، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شاید وقت لگے گا، لیکن بالآخر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
مشتاق حسین نے کہا ۔’’ کیسے ٹھیک ہوجائے گا۔؟ جب تم بھی اور تمہارے دشمن بھی اور وہ نامعلوم طاقتیں بھی۔۔۔ سب لوگ خون کا کھیل کھیلتے رہو گے، دھماکے کرتے رہو گے، بے گناہ لوگوں کو مارتے رہو گے۔۔۔‘‘
’’میں کہہ رہا ہوں نا، ابّا۔‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’یہ سب ختم ہوجائے گا۔ لیکن ابھی نہیں۔ ابھی تو ہر طرف آگ بھڑک رہی ہے۔ ابھی تو یہ شہر ایک جنگل ہے۔ یہاں آپ کے پاس ہتھیار نہ ہوں تو بھیڑیئے آپ کو چیر پھاڑ کر کھاجائیں گے۔ ایک قتل گاہ ہے یہ کراچی۔ یہاں زندہ رہنے کا اختیار خود سنبھالنا پڑتا ہے ورنہ آپ کی لاش کسی ویرانے میں پڑی ملتی ہے۔‘‘
مشتاق حسین نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے، ہر دہشت گرد کے پاس ایسی ہی دلیلیں ہوتی ہوں گی۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں تمہارے منہ سے یہ سب سن رہا ہوں۔ تم صحیح اور غلط کی پہچان سے بھی محروم ہوچکے ہو۔‘‘
’’میں یہ نہیں کہہ رہا، ابّا۔‘‘ آفاق نے کہا۔ ’’یہ غلط ضرور ہے۔ مگر اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔؟ آدمی کو زندگی کبھی کبھی عجیب مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ تقدیر کہہ لیجئے اسے۔ یا کوئی بھی نام دے دیجئے۔ تقدیر آدمی کو دھکیلتی دھکیلتی کسی ایسے راستے پر لے جاتی ہے جو اس کے وہم گمان سے بھی پرے ہوتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے یہ۔ آپ کے ساتھ بھی ہوا ہوگا۔ میں بھی بس اتفاق سے وہ بن گیا ہوں جو میں ہوں۔‘‘
’’اور تم اس پر مطمئن ہو۔‘‘
آفاق نے ہوٹل میں بیٹھے لوگوں پر نظر ڈالی اور آہستہ سے کہا۔ ’’نہیں، ابّا۔ اس شہر میں ایک آپ کے سوا یہ بات میں کسی سے نہیں کہہ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ موت بس ایک گولی کے فاصلے پر ہے یہاں۔ مگر اس زندگی کو اپنی مرضی سے، بالکل اچانک نہیں چھوڑا جاسکتا۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ۔؟ وقت لگتا ہے اس میں۔ موقع تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی ہوجائے تو آپ غدار بن جاتے ہیں۔ دن رات ساتھ رہنے والے، آپ کے دشمن بن جاتے ہیں۔ کچھ دیر تو لگے گی، ابّا۔ لیکن میں نکل آؤں گا اس۔۔۔ اس دلدل میں سے۔ میں وعدہ کررہا ہوں آپ سے۔‘‘
مشتاق حسین کو یوں لگا جیسے اس کے دل پر رکھا ہوا کوئی بوجھ کم ہونے لگا ہو۔ اس نے کہا۔ ’’میں صرف تمہیں زندہ دیکھنا چاہتا ہوں بیٹا۔ زندہ اور محفوظ۔ میں بھی اور تمہاری ماں بھی۔‘‘
’’میں جانتا ہوں، ابّا۔‘‘ آفاق کی آواز بدستور دھیمی تھی۔ ’’چھ مہینے میں، یا سال ڈیڑھ سال میں۔ میں آپ لوگوں کے پاس نہیں آسکوں گا۔ وہ زندگی تو اب دوبارہ نہیں مل سکتی۔ کوئی اور زندگی شروع کرنی ہوگی مجھے۔ کسی اور شہر یا قصبے میں، یا کسی اور ملک میں۔ کسی نئے نام کے ساتھ۔ بس، آپ کو کسی نہ کسی طرح اطلاع مل جائے گی۔ لیکن یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، اس کا ذکر آپ کو کسی سے نہیں کرنا ہے۔ اماں سے بھی نہیں۔ کیونکہ میری زندگی اور موت کا دارومدار ہے اس بات پر۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا۔؟‘‘
مشتاق حسین نے سرہلایا۔
آفاق نے کہا۔ ’’ہوسکتا ہے، سب کچھ اسی طرح ہوتا جائے جیسے میں سوچ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے، یہ سب آسانی سے نہ ہوسکے۔ پتا نہیں، زندگی۔۔۔‘‘
مشتاق حسین نے گھبرا کر اس کی بات کاٹ دی۔ ’’ہوجائے گا۔ سب اسی طرح ہوجائے گا۔ اچھی امید رکھا کرو۔‘‘
آفاق مسکرایا۔ ’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آدمی کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ سب جو۔۔۔ یہ سارا خطرے کا کام۔۔۔ یہ سب حالات کے ساتھ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ ابھی کچھ مہینوں سے حالات خراب ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف خطرہ ہے۔ کچھ دنوں بعد حالات نارمل ہوجائیں گے تو ایسا لگے گا، سب ٹھیک ہے۔ خیر۔ میرا خیال ہے، اب چلنا چاہئے۔‘‘ اس نے سر گھما کر دوسری میز پر بیٹھے لوگوں کو دیکھا۔ شاید نظروں ہی نظروں میں کوئی اشارہ کیا۔
لمحہ بھر کو مشتاق حسین کا دل چاہا، اس سے کہے کہ ابھی تھوڑی دیر اور رک جاؤ۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر اور رک جانے سے کیا ہوسکتا تھا۔ یہ بھی بہت تھا کہ اتنی دیر تک اس کا چہرہ دیکھنے کا، اس کی آواز سننے کا موقع مل گیا تھا۔
آفاق نے کہا۔ ’’مجھے معاف کردیجئے گا، ابّا۔ میں آپ کے کسی کام نہیں آسکا۔ آپ کا ہاتھ نہیں بٹا سکا۔ پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیا میں نے آپ لوگوں کو۔ شاید میرے نصیب میں یہی تھا۔ مگر ابّا، مجھ سے نفرت مت کیجئے گا۔‘‘
آنسوؤں نے اچانک مشتاق حسین کی نظر کو دھندلا دیا۔ ’’میں تم سے نفرت کر ہی نہیں سکتا بیٹے۔‘‘ اس نے بمشکل اپنی آواز کی لرزش پر قابو پا کر کہا۔ ’’تم کچھ بھی کرڈالو۔۔۔ میں مجبور ہوں تم سے محبت کرنے پر۔ تمہاری ماں بھی۔ اور گڑیا بھی۔ تم نہیں جانتے۔۔۔‘‘ وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا۔
’’میں جانتا ہوں، ابّا۔‘‘ آفاق نے ہاتھ بڑھا کر، بہت احتیاط سے اس کے چہرے پر بننے والی آنسوؤں کی لکیر کو صاف کیا۔ ’’آپ بھی یہ جان لیجئے کہ مجھے آپ لوگوں کے پل پل کی خبر رہتی ہے۔‘‘
دوسری میز سے ایک آدمی اٹھا اور ان کی طرف آیا۔ ’’بابو بھائی۔‘‘ اس نے مؤدب انداز میں کہا۔ ’’گاڑی آگئی ہے۔‘‘
آفاق نے اس آدمی کی طرف دیکھے بغیر سر ہلایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
مشتاق حسین اسے جاتے دیکھتا رہا۔ پیچھے سے اس کے چوڑے کاندھے نظر آتے تھے اور گھنے بال اور پراعتماد چال۔ پھر وہ تین لوگوں کے حصار میں ہوٹل سے باہر نکل گیا۔
چند لمحوں بعد ہوٹل کے سامنے سے سیاہ شیشوں والی ایک کار گزری۔ پھر تین موٹر سائیکلیں۔
مشتاق حسین کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا۔ پھر وہ اٹھا اور باہر نکل آیا۔
باہر دھوپ ڈھل رہی تھی۔ بسیں، ویگنیں، رکشہ، موٹر سائیکلیں۔ وہی بھگدڑ تھی۔ وہ فٹ پاتھ پر چلتا گیا۔ کوئی انجانی طاقت تھی جس کی بدولت وہ خود کو تازہ دم محسوس کررہا تھا۔ اسے یاد تھا کہ گھر پر اس کا بے چینی سے انتظار ہورہا ہوگا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اسے کیا احتیاط کرنی ہے۔ پہلے ایمپریس مارکیٹ سے کچھ خریداری۔ گوشت کی دکانوں سے خشک میوے کی مارکیٹ تک کئی چیزوں کا بھاؤ پوچھنا۔ اور نظر رکھنا کہ کوئی تعاقب نہ کررہا ہو۔ پھر رکشہ کے ذریعے ٹاور۔ ٹاور سے واپس اپنے گھر کی طرف جانے والی ویگن۔ اتنا لمبا راستہ اختیار کر کے گھر پہنچتے پہنچتے رات ہوجائے گی۔ لیکن خیر، رات ہوجانے سے کیا ہوتا ہے۔!