میخانہ

کلکتہ کی مشہور سڑک ہریسن روڈ پر ایک سربفلک عمارت کے بالائی حصے میں سیٹھ نتھومل اپنے چشم و چراغ چنومل کو کاروبار کے کچھ خاص گر بتارہے تھے۔


سیٹھ صاحب کے لباس کی وضع، چہرے کی قطع، توند کا گھیر، باتوں کا ہیر پھیر، غرض سارا ظاہر خاص ماڑواڑی تھا۔ مگر ڈرائینگ روم کا سامان، کوچ کرسیاں صوفے قالین، سنگ مرمر کے بُت، نیم عریاں تخئیلی تصویریں اور ریشمی پھول دار ہلکے رنگ کے پردے اس ملمع کا پتہ دیتے تھے جو ہر ہندوستانی سرمایہ دار پر مغرب پرستی نے چڑھا دیا ہے۔


رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ سڑک پر ’’بلیک آؤٹ‘‘ تھا، ٹریم گاڑیاں اور بسیں بند ہوچکی تھیں۔ ٹیکسیاں اور فوجی لاریاں خال خال چلتی تھیں۔ فضا پر ایک غنودگی اور سکوت کی سی کیفیت طاری ہوتی جارہی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے اندھیری راتوں میں مقبروں اور مرگھٹوں میں مسحوس ہوتی ہے۔ اس مرگ بدوش سکوت کو دو آوازیں بار بار توڑتیں تھیں۔ ایک تو سڑک پر تڑپتے ہوئے قحط زدہ بھوکوں کی چیخ اور دوسری پر شباب بہو کے گرامو فون پر بجتے ہوئے ریکارڈوں کی صدا۔


چُنو مل نے بیوی کے کمرے سے کسی خوش گلو کو ’’پیاملن کی آس‘‘ بار بار کہتے سُنا اور اس ’’پکار‘‘ پر اس کا لبیک کہنے کو بے ساختہ جی چاہنے لگا۔ اس نے اس دن کے سٹے کی داستان جلدی جلدی ختم کی اور صوفے سے اٹھ کر لبِ فرش تک آیا۔ وہ کسی آس والی کو بےآس نہ کرناچاہتا تھا۔ اس کا معشوق تو صرف روپیہ تھا۔ ان کی زندگی کا آسرا تو وہی تھا۔ انہوں نے ہلکے ہلکے کھانس کر چنومل کی توجہ اپنی طرف پھر مبذول کی۔انہوں نے مسکراتی آنکھوں سے پوچھا،


’’تمہارے نئے کام کا کیاحال ہے؟‘‘


’’کون سا؟‘‘


’’وہی آشرم والا۔‘‘ اور وہ میمونی انداز سے ہنسے۔


’’جی کل ساٹھ ہزار پانچ روپے ساڑھے گیارہ آنے آج تک اٹھے ہیں اور ایک لاکھ پچپن ہزار تین روپے سوا چودہ آنے وصول ہوئے ہیں۔‘‘ اس کی آواز میں ایک ہلکا سا تفاخر تھا۔ پتاجی بھی کیا کہیں گے کہ ان کا چنو کتنا اچھا حساب رکھتا ہے۔


بڑے سیٹھ نے منہ بنایا۔ وہ بولے، ’’بس لگ بھگ تین گنا فائدہ ہوا!‘‘ ان کا انداز صاف کہتا تھا، ’’ان لونڈوں کو ابھی ٹھیک طور پر بیوپار نہیں آتا۔‘‘


چنومل کی ساری اکڑ نکل گئی۔ اس نے دفاع میں کہنا شروع کیا، ’’میں کیا کروں سوائے سندھ اور پنجاب کے اس مال کی کہیں کھپت نہیں اور وہاں تک پہنچانے میں بڑا خرچ بیٹھتا ہے۔ پھر بیچ والے آدھا ساجھا کرلیتے ہیں۔ اس پر جگہ جگہ پر گھوس۔ دام کا ایک چوتھائی مشکل سے بچت میں آتا ہے۔‘‘ لب و لہجہ میں اس حد کی غصہ بھری شکایت تھی جیسے اس پاک کمائی میں اس کے سوا کسی کو حصہ پانے کاحق ہی نہ تھا۔


’’پھر بہار اور یوپی کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘


’’جی بہار میں تو پہلے ہی ہلکا سا کال ہے۔ وہاں بھی تو اپنا آشرم ہے۔‘‘


’’اور یوپی؟‘‘


’’جی وہاں سدا سے تیرتھ استھانوں پر اس طرح کے آشرم کھلے ہوئے ہیں۔ پھر پنڈوے بدیسیوں کو دھنسنے نہیں دیتے۔‘‘


’’تو پھر ترائی میں نکاسی کی فکر کی ہوتی!‘‘ بوڑھا بنوٹیا بچے کو گھاتیں اور چوٹیں بتاتا جاتا تھا۔


مگر چنومل انیلانہ تھا۔ وہ سیانا کوا بن چکا تھا۔ بولا، ’’جی وہاں پیسہ کہاں؟ وہ تو اسی لیے ساجھے کی ہانڈی ہی میں کھیلتے ہیں۔‘‘


’’پھر اب کیا کرو گے۔ بڑی پکڑ دھکڑ ہے۔ کڑا فوجی انتظام ہے۔‘‘


چنو مل آنکھیں نچاکے بولا، ’’جی اب باہر مال نہ جائے گا۔ اسی جگہ کھپت ہوجائے گی۔‘‘


’’وہ کیسے؟‘‘ استاد کے ذہن میں بھی یہ پیچ نہ آیا تھا۔


شاگرد منہ سکھاکر بولا، ’’آخر ہمارےہندوستانی سپاہی اپنا دیس، گھربار چھوڑ کر آئے ہیں۔ ان کی تفریح کا سامان کرنا بھی تو کلکتہ والوں کافرض ہے۔‘‘


دونوں باپ بیٹے کھکھلاکر ہنسے۔ ساتھ ہی سڑک سے ایک درد بھری چیخ کے ساتھ آواز آئی، ’’ہائے میری بچی مٹھی بھر اناج کے لیے مرگئی!‘‘ ادھر بُہو کے گراموفون نے ایک نیا گانا چھیڑا، ’’پی کے ہم تو جو چلے جھومتے میخانے سے!‘‘ چنومل کی آنکھوں میں سرخ شراب کی ایک ٹیڑھی ترجھی لکیر پھر گئی۔ کس غضب کی آنکھیں تھیں۔ آشرم والی اس رادھکا کی۔ سیاہ پتلیوں کے گرد لال لال ڈورے! آنکھ بھر کر دیکھ لے تو آدمی بے پیے بدمست ہوجائے۔ لیکن کتنی سوکھ گئی تھی وہ فاقہ کرتے کرتے! بالکل ہرنی کی آنکھیں، مگر اسی کا سا خالص ہڈیوں کا چہرہ! پورے تین ہفتے کی دوا اور غذا کے بعد تو اسکی سوکھی ہڈیوں میں ذرا سی تری اور نرمی پیدا ہوئی تھی۔ پھر جب چنو نے اسے اپنے اصول اور اس کی مرضی کے خلاف پہلی دفعہ اپنایا تو اس نے بے بسی کے غصہ میں اپنے ہونٹوں کو کس کس طرح چباڈالا تھا اور جب فتح سے سرخرو سیٹھ نے اسے سب کچھ بھول جانے کے لیے شراب پلانا چاہی تو اس نے جھنجھلاہٹ میں کیسی لات ماری تھی کہ سرخ شراب کی بوتل لڑھک کر فرش کو گلنار کرتی دور تک چلی گئی تھی۔ شراب اور خون! ’’پی کے ہم تم جو چلے جھومتے میخانے سے!‘‘ نہ جانے کس کے ہاتھ بکی، کہاں گئی غریب!


چنومل کے خیالات کا سلسلہ بڑے سیٹھ نے توڑا۔ وہ چڈھے کھجاتے ہوئے بولے، ’’تمہارے ان آشرموں سے تو میرے خیراتی اڈے ہی اچھے رہے!‘‘


’’وہ کیسے؟‘‘ چنومل اپنے کو باپ سے کچھ اچھا ہی بیوپاری سمجھتا تھا۔


’’وہا، چاروں اڈوں پر سامنے سڑک پر تو بھوکوں کو آٹا بٹتا تھا اور ادھر پیچھے گلی میں اچھا اناج منہ مانگے داموں بکتا تھا۔‘‘ وہ اس طرح بے ڈھنگے پن سے ہنسا کہ مصنوعی دانتوں کا چوکا جگہ سے کھسک گیا۔ اس نے جلدی سے ہاتھوں کے سہارےاسے ٹھیک کیا۔


’’اور چار من آٹا جو روزانہ مفت بانٹنا پڑا۔ وہ اس مہنگی کے سمے کس بھاؤ بکتا۔؟‘‘ چنومل پسپائی میں بھی لڑائی جاری رکھنےکا ڈھب سیکھ گیا تھا۔


’’اونہہ! بچے ہو! وہ تو کب کا خراب ہوچکا تھا۔ میں نے جوار پسواکے اس میں ملادی۔ نہیں تو اسے گائیں بھینسیں بھی نہ پوچھتیں!‘‘


’’پھر بھی کافی خرچ ہوا ہوگا!‘‘ اب بھی وہ یقین کرنے کو آمادہ نہ تھا کہ بوڑھا پھوس جوان رعنا سے بازی لے گیا۔


’’پر اسی کی وجہ سے ایک کے دس وصول ہوئے۔ جس کو غرض تھی اس نے پورے روپے کے پاؤڈیڑھ پا۔ چاول لیے۔‘‘


’’کل کتنا خرچ ہوا ہوگا؟‘‘ لب و لہجہ کہتا تھا۔ اب کچھ کچھ یقین آچلا ہے۔


’’سڑا ہوا آٹا آج سے تین برس پہلے پندرہ ہزار کا تھا۔ دو ہزار اس کے سود کے مانو، تین ہزار کی اس میں جوار ملائی۔ کوئی تین ہی ہزار آدمیوں پر خرچ ہوئے۔ دس ہزارکے قریب گھوس میں اٹھے۔ بس یہی سمجھو کہ کوئی تیس ہزار خیرات میں اٹھا۔‘‘


’’اور ادھر سے کیا ملا؟‘‘ اب استعجاب میں خوشی کی بھی جھلک تھی۔ یہ ساری کمائی اسی اکیلے کو تو ملے گی۔


’’پانچ لاکھ کا اصل مال تھا۔ تیس لاکھ پینتیس ہزار ملے۔ بس سمجھ لو تیس لاکھ صاف نکلے!‘‘


چھوٹا سیٹھ اچک پڑا، ’’چھ گنا فائدہ!‘‘