باسی پھول (۲)

صابرہ کو رخصت کیے ہوئے سات برس کا زمانہ گزر چکاتھا۔ میں بھی نوجوانی کی حدوں کو پار کرکے اور طالب علمی کی بے فکری کو خیرباد کہہ کے، اب ایک ذمہ دار انسان کی طرح اور ایک باقاعدہ وکیل کی حیثیت سے دن بھر کچہریوں کی خاک چھانتا اور بارہ بارہ بجے رات تک، صابرہ کی یاد میں نہیں، بلکہ محض قانون حفظ کرنے، اور نظیریں ڈھونڈھنے کے لیے لیمپ جلائے، اپنے دفتر میں بیٹھا کام کیا کرتا تھا۔ میں یہ ہرگز دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ صابرہ کی یاد مجھے اب بھی ستاتی تھی۔ اس لیے کہ امتداد زمانہ نے دل کو اس تکلیف سے اس قدر مانوس بنادیا تھا کہ اب الم کی جگہ لذت محسوس ہوتی تھی۔ سن کے بڑھنے کی وجہ سے اعصابی ہیجان مفقود، اور جذبات کا وفور معدوم ہوگیا تھا۔ گویا چشمہ محبت میں برساتی مددجزر کی جگہ اب موسم گرما کی سبک و نرم روانی تھی، ہیجان و ہوسناکی کے خس و خاشاک تہ نشین ہوچکے تھے اور طغیان و طوفان کی جگہ صفائے قلب و استواری وفا نے لے لی تھی۔ اگر دل میں درد تھا تو وہ بالکل ویسا جیسا کہ محنتِ شاقہ سے اعضا میں پیدا ہوجاتا ہے اور جس کی وجہ سے جسم کے دبانے میں ایک خاص قسم کالطف حاصل ہوتا ہے، اس درد کو جوڑوں کی اس چوٹ سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں جو پُروائی میں چمک اٹھتی ہے، صابرہ کی یاد کے لیے پروائی کا کام وہ مرجھائی ہوئی کلی کرتی تھی، جو اب بھی، ہر سال عقد کی تاریخ کو، میرے پاس پُرزے میں لپٹی ہوئی بھیج دی جاتی تھی، ان دنوں اس پُرزے کی جگہ دوخطوں نے لے لی تھی۔ ان دو خطوں میں اظہارِ خلوص کے ساتھ ساتھ اس امر کی نصحیت کی گئی تھی کہ مجھے اب جلد سے جلد شادی کرلینا چاہیے اور آخری خط میں مشاطگی کے فرائض کی انجام دہی کی آمادگی بھی ظاہر کی گئی تھی!


میں جھوٹ نہ بولوں گا۔ مجھے شادی کے نام سے نفرت نہ تھی اور نہ اب مجھ میں صابرہ کے متعلق وہ والہانہ کیفیت باقی تھی کہ میں سوائے اس کے کسی دوسرے کے ساتھ اس ذکر ہی کو ناپسند کرتا، لیکن پھر بھی صابرہ کی طرف سے اس امر کی سلسلہ جنبانی، بجھتی ہوئی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف تھی۔ غور کرنے والی بات یہ تھی کہ وہ عورت جو شوہر، اولاد، اور خانہ داری کے علائق میں گرفتار ہونے کے باوجود، ہر سال میری محبت کی یادگار مناتی رہے، جب میرے لیے رفیق تنہائی کی تلاش کا کام بھی اپنے ذمہ لے اور خود کوشش کرے تو اس کی اس نئی عنایت سے دل میں جذبۂ امتنان بڑھے گا، یا نہیں، اور اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوگا یا نہیں؟ صابرہ کی محبت کو اگر کوئی شے پھر اس کی پچھلی صورت میں لاسکتی تھی، تو اس کی یہ تحریک تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس آخری خط کے پانے کے بعد، میں اپنے میں وہی والہانہ کیفیت پانے لگا، جو آٹھ برس پہلے مجھ میں موجود تھی۔ گویا آتشِ محبت کی بجھتی ہوئی چنگاری کو، جو علائق کے خاکستر میں دبی پڑی تھی، صابرہ نے پھر اپنے ہاتھوں ایک شعلہ جوالہ بنادیا۔ میں سات دن متواتر شب و روز اس آگ میں جلتا رہا۔ بالآخر آٹھویں دن میں نے صابرہ کے خط کا جواب بھیجا، اس خط میں میں نے خدا جانے کتنی قسموں کے ساتھ اپنے اس عہد کو دہرایا تھا کہ میں اب تمام عمر یوں ہی بن بیاہا رہوں گا اور خط ختم اس فقرے پر کیا تھا کہ ’’مجھے تاہل کی زندگی سے اپنی یہی زندگی پسند ہے جب اتنی فرصت ہے کہ:
بیٹھا رہوں تصورِ جاناں کیے ہوئے!‘‘


صابرہ نے اس کا جواب لکھا تھا وہ میرے پاس محفوظ ہے، اس لیے اس کی نقل بآسانی ممکن ہے۔ ملاحظہ ہو:


میرے دیوانے! آپ کا خط ملا۔ اسے پڑھ کر مجھے جتنی خوشی ہوئی اس سے زیادہ رنج ہوا۔ دنیا میں بھلا کون سی عورت ہے جسے اس یقین سے خوشی نہیں ہوتی کہ اس سے ایک شریف، تعلیم یافتہ مرد محبت کرتا ہے اور وہ بھی شریفوں کی طرح محبت کرتا ہے! آپ نے، جس شرافت سے میری اور اپنی محبت کو نباہا ہے، اس کی قدر نہ کرنا، عشق و وفا کانام رسوا کرنا ہے۔ لیکن واقعات، خواہشات کے پابند نہیں ہوتے اور جو کچھ میرا اور آپ کاجی چاہتا تھا، اور جو کچھ میرے اور آپ کے معاملے میں واقعات پیش آئے، ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میں بیاہی جاچکی، خیر سے بچے والی بھی ہوں، اللہ اسے زندہ رکھے میرا پتّن چار برس کا ہوچکا ہے۔ بے حیائی ضرور ہے، مگر اظہار واقعہ اس موقع پر غالبا واجب و لازم ہے، اس لیے عرض کرتی ہوں کہ میرے بہار کے دن ختم ہوچکے۔ میری آنکھوں کا رس، میرے ہاتھ پاؤں کا کس بل زائل ہوچکا ہے۔ میں نہ اب نوجوان ہوں، نہ بن بیاہی اور آپ ابھی تک گزشتہ ایام کی تصویریں کلیجے سے لگائے بیٹھے ہیں! آپ کی صابرہ، سات آٹھ برس قبل والی صابرہ، اس دنیا میں نہیں ہے۔ پھر اس کی یاد کیسی؟ اور اس یاد پر دنیا کا تج دینا کیسا؟ کیا آپ کی اس محبت، آپ کی اس وفا کے بعد بھی میرا جی نہیں چاہتا کہ میں آپ کو آرام سے دیکھوں؟ آپ کہیں گے ’’میرے لیے گزرے ہوئے دنوں کی تصویریں بہت ہیں!‘‘ میں عرض کروں گی تصویروں میں وہ گرمی نہیں جو عورت کے دل میں ہے، وہ خدمت کی صلاحیت نہیں جو عورت کے نازک ہاتھوں میں ہے اور وہ تسکین دہی کی طاقت نہیں جو زندہ عورت کے سینے میں ہے! میں آپ کو کیسے سمجھاؤں۔


ہائے کمبخت تونے پی ہی نہیں!


میں اس لیے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں، آپ کو خدا اور رسول کا واسطہ دلاتی ہوں اور آپ کو اپنے ہی سر کی قسم دیتی ہوں کہ اب بن بیاہے رہنے کے خیال کو دل سے نکال ڈالیے اور اپنا گھر بسائیے! زندگی کی گاڑی بغیر دونوں پہیوں کے نہیں چلتی۔ آپ دنیا میں رہ کے سنیاس لیے بیٹھے ہیں اور وہ بھی مجھ نصیب جلی کے لیے! وفا ہوچکی،محبت کے امتحان کی حدیں کب کی گزر گئیں، اب تو صریحی خودکشی اور قطع نسل ہے! اگر مجھے آپ کی قدر نہ ہوتی، اگر میں آپ کے استقلال اور آپ کی پامردی کی قائل نہ ہوتی، یا میں آپ ہی کی صابرہ نہ ہوتی تو میں اپنی جگہ پر اس سے خوش ہوتی کہ آپ نے اپنی زندگی میرے پیچھے تباہ کردی۔ لیکن میں سچ کہتی ہوں کہ مجھے آپ کی اس موجودہ زندگی کا جب خیال آتا ہے تو میں کانپ اٹھتی ہوں میری سی حقیر و ذلیل عورت کے لیے آپ سامرد اور جوگ لے! یہ میرے اوپر اتنا بار ہے جو میرے کمزور کاندھوں سے اٹھایا نہیں جاسکتا! للہ اپنے پر اور مجھ پر رحم کیجیے اور اپنا گھر بسائیے۔


آپ اگر یوں نہ مانیں گے تو میں خود کوئی لڑکی تلاش کرکے آپ کے متعلق سلسلہ جنبانی شروع کردوں گی، پھر تو آپ اپنی صابرہ کو جھوٹی نہیں بناسکتے! میں آپ کے جواب کا بے چینی سے انتظار کرتی رہوں گی!‘‘


اس خط کے پڑھنے کے بعد جو میری حالت ہوئی اس کااندازہ انہیں لوگوں کو ہوسکتا ہے جو صاحبانِ دل ہیں۔ ایک طرف تو میرے دل میں صابرہ کے اس نئے ایثار اور اپنی یاد کی قربانی کی ترغیب پر مرمٹنے والا پیار آتا۔ دوسری جانب عقل سلیم یہ کہتی کہ صابرہ کی رائے درست و صحیح ہے! پھر عقل کی خشک ہیزمی رائے میں اعصابی ہیجان ہاں میں ہاں ملاکر نرمی اور گرمی شامل کردیتا۔ مرد، ایسا مرد، جس کے قوائے عقلی و ذہنی درست ہوں، جس کی تندرستی ٹھیک ہو، اور جس کو کوئی جسمانی بیماری نہ ہو، تاہل کی زندگی کے لیے فطرتاً مجبور ہے۔ یہی فطرت میری عقل کے ساتھ تھی۔ دل کہتا صابرہ کی سی شریف، غیور اور باحیا خاتون کی یاد مجھ میں اب تک بسی رہی ہیں اس میں کسی دوسرے کی شرکت نہیں چاہتا، اس گھر میں کسی دوسرے کو جگہ نہیں مل سکتی۔ جسم کہتا میں ایک خیال اور ایک تصویر کے لیے اپنے کو کب تک مارتا ہوں؟ پھر یہ امر تو عقل کے بھی خلاف ہے اور فطرت کے بھی۔‘‘ اس بحث میں بوالہوسی بھی آکر شریک ہوجاتی اور اپنے مقصد خاص کے حصول کے لیے اور ’’شیوۂ اہل نظر‘‘ کی شکست کی غرض سے یہ بہانہ پیش کرتی کہ صابرہ تو خود ہی اس پر مصر ہے کہ برہمچاریہ کا بھرم ٹوٹے اور وہ بھی کن الفاظ میں! خدا و رسول کا واسطہ! اپنے سر عزیز کی قسم۔


غرض رات دن میرا سینہ دیوانی کچہری تھا، جہاں دو مختلف الخیال وکیلوں کی جرح اور بحث بڑی گہماگہمی سے جاری رہی اور میں ایک جج کی طرح سب کچھ سننے کے لیے مجبور تھا! میں نے چوتھے دن اس خانگی جنگ سے عاجز آکر صابرہ کے خط کے جواب میں لکھ بھیجا:


’’نہ فراموش ہونے والی صابرہ! تمہارا خط ملا۔ میں تمہیں اس کے جواب میں کیا لکھوں؟ زہردے اس پر یہ تاکید کہ پینا ہوگا! میں تمہارا صید، تمہارا گرفتار، تمہارا غلام، تم مجھے اپنا بناکے رکھو، کسی دوسرے کو تحفۃً دے دو، یا ہمیشہ کے لیے گلا گھونٹ دو! تم مالک و مختار ہو۔ نہ اپنے قبضۂ قدرت میں ہوں، نہ مجھ میں فیصلہ کرنے کی اور نہ عزم و ارادہ کی صلاحیت ہے! بس اتناجانتا ہوں کہ قفس یا قیدخانے کے بدلنے سے میں نہیں بدل سکتا! میں تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا!‘‘


دوسرے ہی دن جواب آیا۔


’’بہت خوب، میں اپنے ہی اختیار تمیزی سے کام لوں گی اور آپ کا گھر بساکے دم لوں گی۔ اب آپ کو اپیل کا اختیار نہیں۔‘‘


اس کے بعد ایک ہفتہ تک کوئی خط نہیں آیا۔ پھر ایک پرزہ ملا۔


’’نواب ۔۔۔ کی صاحبزادی میری دیکھی بھالی ہیں، حسین، سلیقہ شعار، پڑھی لکھی اور نیک چلن۔ میں نے اس سے بات طے کردی ہے۔ شاید ادھر کے لوگ آپ سےکسی دن ملنے آئیں۔ خدا کے لیے کوئی ایسی بات نہ کہہ دیجیے گا کہ ان لوگوں کو ناگوار ہو اور میری سبکی ہو!‘‘


بہرحال وہ حضرات آئے، گفتگو ہوئی اور پسند کااظہار ڈھکے پردوں فرماکر میرا فوٹولے گئے۔ میں نے ایک دوست جاوید صاحب کو تاریخ و ساعت کا دن اور وقت کا تقرر اور تمام انتظامات کااہتمام سپرد کیا اور خود ایک کمیشن کے سلسلے میں دو ہفتے کے لیے کلکتہ چلا گیا۔


کلکتہ کی سیروتفریح میں بہت کچھ دل بہل گیا تھا اور ہونے والی شادی کاخیال وہاں کے مختلف اسٹوڈیو کے دیکھنے کے سلسلے میں ذہن میں دھندلا سا رہ گیا تھا کہ دفعتاً میاں جاوید کا خط ملا۔ لکھا تھا کہ ’’عقد کی تاریخ مقرر کردی گئی ہے اور اب سے صرف بیس دن باقی رہ گئے ہیں، اس لیے تمہیں جلد سے جلد واپس آنا چاہیے۔ نیز اپنے ہمراہ وہ تمام چیزیں لیتے آنا جو فہرست منسلکہ میں درج ہیں۔‘‘


جی تو چاہتا تھا کہ میں اس مہمل خط کو ’’ورق بے معنی‘‘ کہہ کر دریائے کنگ میں غرق کردوں، لیکن صابرہ سے زبان ہارچکا تھا اور بوالہوسی اور جسمانی لذات کی خواہش مارِ آستین بنی موجود تھی۔ اس نے پھر سبز باغ دکھانا شروع کیا اور میں جاوید کے احکام کی تعمیل پر مجبور ہوگیا۔


تین چار دن بعد جب میں ایک اچھی خاصی دوکان کھولنے کا سامان ساتھ لے کر لکھنؤ واپس آیا، تو جاوید اسٹیشن پر موجود ملے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ شادی کی تاریخ محض اس لیے بڑھادینا پڑی کہ لڑکی والوں میں سے کسی عزیز قریب کا دفعتاً انتقال ہوگیا اور اب جب تک کہ ان کی برسی نہ ہوجائے شادی نہیں ہوسکتی۔ میں نے ذرااطمینان کی سانس لی اور گھر پہنچ کر میاں جاوید تو اپنی فرمائشات کی فہرست سے خرید شدہ تحائف ملاتے رہے اور میں، اس تھکے ہوئے مزدور کی طرح جو بارِگراں منزلِ مقصود تک پہنچانے کے بعد سبکدوش ہو جاتا ہے، پڑکے سو رہا۔ قریب شام جب جب میں سو کے اٹھا تو جاوید گھر جاچکے تھے۔ منشی جی بھی نہیں آئے تھے، اس لیے میں دیر تک حمام میں بیٹھا نہایا کیا۔


اس دیر کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے نہانے میں خاص لطف آرہا تھا، بلکہ حمام میں پہنچتے ہی مجھے اپنا وہ نہانایاد آگیا جو مجھے عشق کی ابتدائی منزلوں میں بارہ بنکی کے سفر کے بعد پیش آیا تھا۔ اور پھر آٹھ برس پہلے والی صورت دماغ نے نظروں کے سامنے پیش کردی اور پھروہی ربودگی، وہی بدحواسی پیدا ہوچکی تھی کہ یہ خیال آیا کہ ہونے والی سسرال میں موت، صابرہ کو خط لکھنے کی نوید لے کر آئی ہے۔ میں نے اس آٹھ برس کے عرصے میں نہ تو صابرہ کے میاں سے ملنے کی کوشش کی تھی اور نہ خود کبھی خط لکھنے میں سبقت کی تھی، لیکن آج بہانہ ہاتھ آگیا تھا، اس حادثے کے متعلق مزید تفصیلات جاننے کی کوشش نہ کرنا خلافِ انسانیت و مروت ہوتا۔ اس لیے میں نے جلدی جلدی جسم خشک کرکے کپڑے پہنے اور صابرہ کو خط لکھنے بیٹھ گیا۔ پورا خط مجھے یاد نہیں، لیکن بعض حصے اب بھی حافظے میں محفوظ ہیں۔ میں نے کلکتہ سے واپسی کی خبر دینے اور اس کی خوشی کے لیے اپنے کو شادی کی دیوی پر بھینٹ چڑھا دینے کا تازہ وعدہ کرنے کے بعد، اس حادثے کی نوعیت کے متعلق اطلاع چاہتی تھی اور پھر ایک بارلجاجت سے لکھا تھا:


’’صبرآزما صابرہ! یہ یاد رکھو کہ یہ رشتہ میں نے تمہارے حکم سے منظور کیا ہے۔ لیکن یہ میری محبت کا تم سخت تریں امتحان لے رہی ہو۔ تم کہہ سکتی ہو کہ


’بت سامنے رکھ لینا اور یاد خدا کرنا!‘


مگر دیوی یہ مجسمے اس کے لیے بنائے جاتے ہیں جو جسم و جسمانیات سے منزہ ہے۔ نہ کہ اس کی عوض جو حسن مجسم ہو! تمہارے پرستار کے لیے پتھر کی دیوی میں دل پھونکنے والی گرمی کہاں؟ تم کہوگی وہ پتھر کی نہیں، انسان ہے، جوان ہے، مجھے یہ تسلیم ہے، پہلو ضرور گرم ہوگا، میں کوئی راہب نہیں! لیکن ۔۔۔ لیکن میری صابرہ، سمجھنے کی کوشش کرو، کیا تم تاہل کی زندگی میں مجھے بھول سکیں؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے جواب دو۔ کیا کسی خیالی تصویر کو دل سے لگائے بیٹھے رہنا اس حالت میں بھی اتنا ہی آسان ہے؟ تم کہوگی میں عورت ذات ہوکر یہ مراحل جھیل رہی ہوں، تم مرد ہوکر اس مصیبت سے کیوں ڈرتے ہو؟ میں کہوں گا کہ یہ تو مقتضائے دوستی نہیں کہ کہا جائے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں مگر یار کو لے ڈوبیں گے!‘‘ تم ایک شریف، بے بس خاتون تھیں اور میں ایک آزاد خودمختار مرد ہوں۔ تمہیں زبردستی بیڑیاں پہنائی گئیں۔ تم چاہتی ہو میں خوشی خوشی خود سے پہن لو۔ للہ اب سے اپنے بندہ پر رحم کرو! جب سے میں نے اس حادثے کی خبر سنی ہے، ’’فرصت کے رات دن‘‘ کے شیریں خواب پھر دیکھنے لگا ہوں۔ کاش یہ خواب تمہارے ہاتھوں شرمندۂ تعبیر نہ بنتا۔۔۔‘‘


غرض مختلف پیرایوں میں بہت سی خوشامد اور لجاجت لکھ کر لفافہ بند کیا، مہر لگائی اور اپنے سب سے معتمد آدمی کو بلاکر حوالہ کیا، نواب صاحب کی حویلی کا پتہ بتایا اور تاکید کی کہ سوائے رسولن ماما کے جو میرے اور صابرہ کے خطوط لایا اور لے جایا کرتی تھی کسی دوسرے کو خط نہ دے۔


کوئی دو گھنٹہ بعد صابرہ کاجواب آیا۔ میرے ہی خط پر لکھا تھا۔


’’رشید صاحب۔ آپ کی شادی مجھ ہی مانگ اجڑی کی وجہ سے رک گئی، آج پانچواں دن ہے کہ میرا بچہ یتیم ہوگیا۔‘‘


اس خبر کا مجھ پر جو اثر ہوا اس کا تجزیہ مشکل ہے۔ میں کبھی روتا تھا اور کبھی ہنستا تھا۔ روتا اس لیے تھا کہ صابرہ نے میرا گھربسانے کی کوشش کی اور اس کا گھر خود اجڑ گیا۔ ایک رنجور و مہجور انسان میں اپنے کو خاص طور سے قسمت کا ستایا سمجھ لینے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ بہت آسانی سے یقین کرلیتا ہے کہ اس کے دوست احباب پر بھی جو مصائب آتے ہیں، ان سب کاباعث وہی ہے۔ میں نے اپنے کو بہت دنوں سے قسمت کا ستایا سمجھ رکھا تھا، اس لیے صابرہ کےاس نئے غم کا سبب بھی اپنے ہی کو مان لینا بہت ہی معمولی سی بات تھی، میں ان مصائب و تکالیف سے اچھی طرح واقف تھا جو ایک ہندوستانی بیوہ کوآئے دن برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ میں اس کو خوب جانتا تھا کہ ہمارے اس ملک میں بیوہ کے معنی بعض موقعوں پر بالکل اچھوت کے ہیں۔ یہی نہیں کہ اس کا سہاگ چھن جاتا ہے اور وہ دنیاوی جنگ کے لیے بالکل یکہ و تنہا رہ جاتی ہے، بلکہ اس کے لیے اس طرح کے آلام و مصائب فراہم کردیے جاتے ہیں جو دیگر ممالک کے باشندوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتے، دولہا کا ہر عزیز اسے بھُن پیری، منحوس اور قاتلہ سمجھنے لگتا ہے اور اپنی اپنی ذہنیت اور صلاحیت کے مطابق اس کے لیے سزائیں تجویم کرتا ہے۔ صابرہ واقعی اسم بامسمیٰ تھی۔اس کا تحمل،اس کی بردباری،اس کا استقلال بے عدیل و نظیر تھا۔ لیکن پھر بھی میاں کا سہارا اٹھ جانے اور ایک باعصمت پردہ دار خاتون ہونے کی وجہ سے اس پر کوہ الم ٹوٹ پڑا تھا۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں کس طرح اس کے پاس پہنچ کے اسے تسکین دوں، اس لیے اپنی اور اس کی بے بسی پر دل کڑھتا اور آنسو امڈے آتے تھے۔


ساتھ ہنسی بھی آتی تھی اور وہ اس بات پر کہ بی صابرہ خوشیاں منانےاور مجھے دولہا بنانے چلی تھیں۔ گویا اس صنفی لطافت و نزاکت کے باوجود آپ نے میرے لیے قسام ازل اور کاتب تقدیر سے مقابلہ کرنے کاارادہ کیا تھا! ایک پری چہرہ کے دستِ سیمیں اور مقدر کا فولادی پنجہ! پھر اس خیال پر بھی ہنسی آتی تھی کہ جہاں تک اس ہونے والے رشتہ کا تعلق تھا مجھے اس کے ٹل جانے سے خوشی تھی مگر ادھر دوسری جانب، خدا جانے کیا کیا چہ میگوئیاں ہوں گی اور بہت ممکن ہے کہ وہ ناکردہ کار، جو میرے سرمنڈھی جانے والی تھی، اپنے دل میں گھٹتی اور کڑھتی ہو۔ ادھر اس مخمصے سے چھوٹنے پر اطمینان و امتنان کے جذبات، ادھر اس نئی رکاوٹ کے باعث ایک مستِ شباب حسینہ کے چہرے پر غم کے آثار!


میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میرے دل میں سوائے ان جذبات کے اس وقت تک کوئی اور خیال نہ آیا تھا۔ لیکن شام کو جب جاوید آئے اور ان سے گفتگو ہونے لگی تو انہوں نے ایک ایسا فقرہ کہہ دیا کہ جس سے میرے خیالات میں ایک انقلابِ عظیم پیدا ہوگیا۔ جاوید میری اور صابرہ کی حالت پر افسوس کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ دیر چپ رہے، پھر یکبارگی مسکراکر بول اٹھے ’’ارے یار رشید، تم بھی عجیب سودائی ہو۔ اب تو میدان صاف ہے، صابرہ بیگم تو اب تمہاری ہیں!‘‘


مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے جاوید نے میرے قلب پر اچانک خنجر کا وار کردیا ہو۔ میری اور صابرہ کی محبت ایسی نہ تھی کہ میں اس کی مصیبت کے وقت ان لغویات پر غور کرسکتا۔ میں نےاسی لیے جاوید کو بہت ہی تیکھے تیوروں سے دیکھ کر کہا ’’جب تمہیں شریفوں کے احساسات و جذبات کا علم نہیں ہے، تو تم خاموش ہی رہنے کی کوشش کیوں نہیں کیا کرتے؟ جو مہمل بات منھ میں آئی کہہ گزرے!‘‘


وہ کچھ شرمندہ ومنفعل ہوکر اپنی صفائی میں بحث کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ میں نے ذرا ڈانٹ کر کہا ’’بہتر ہے کہ آپ اس وقت خاموش ہی رہیں، ورنہ ممکن ہے کہ آپ پھر کوئی ایسی بے تکی بات کہہ دیں کہ میرے لیے اور بھی باعثِ آزار و تکلیف ہو۔‘‘


انہوں نے آزردہ ہوکر مجھے دیکھا اور اٹھ کر گھر چلے گئے۔ تھوڑی دیر تو میں ان کو چپکے چپکے خوب بُرا بھلا کہا کیا۔ پھر بدطینتی اور خود غرضی نے آہستہ آہستہ ان کی وکالت شروع کی۔ میں نے گھبراکر ٹہلنا شروع کردیا۔ اب میں لاکھ لاکھ لمبے لمبے ڈگ لگاتا اور سگریٹ پر سگریٹ پیتا ہوں مگر دماغ میں وہی ایک فقرہ گونج رہا ہے ’’اب میدان صاف ہے، صابرہ بیگم اب تو تمہاری ہیں!‘‘


شریف جذبات کہتے کہ اس طرح کا خیال بھی اس وقت دل میں لانا کمینہ پن ہے، وہ تو میاں کے سوگ میں بیٹھی ہے، اسے تو اپنی خوشیوں کے پامال ہونے کا رنج ہے اور اپنے بچے کی یتیمی کی اذیت اور تمہیں اپنی خودغرضی سے، ظاہر بظاہر نہ سہی، مگر خفیہ طور پر مسرت ہے نہ تو اس کی تکلیف کا خیال اور نہ اس کا دھیان کہ تم اسے کس طرح تسکین دے سکتے ہو، بس اپنے صوے مانڈے کی فکر!


رذیل جذبات کہتے آٹھ برس تک بیٹھے رہے، زندگی برباد کی، اب جب امید کی جھلک دکھائی دی تو خوش نہ ہونا اپنے کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اب اس ستارۂ امید کو بھی زبردستی اگنی بیتال سمجھ کر اس سے گریز کرنا شرافت و غیرت نہیں، بلکہ خودکشی ہے اور نفس کا صریحی خون ہے۔ یہی کرنا تھا تو دنیاوی زندگی اور جہد للبقا میں حصہ ہی کیوں لیا۔ راہب بن گئے ہوتے اپنی شخصیت ہی مٹاڈالی ہوتی، اپنے کو کس طرح فناکر دیا ہوتا کہ بجائے رشید کے ’’صابرہ‘‘ ہوگئے ہوتے!‘‘


یہ طعن و تشنیع، وار اور رد، حملہ اور دفاع، میرے سینے کے اندر برابر جاری رہے میں نے بڑی مشکلوں سے اس جنگِ زرگری کوبند کیا اور صابرہ کو حسب ذیل تعزیت کا خط لکھا:


’’میں تمہیں کس منہ سے تسکین دوں۔ نہ میں تمہارے گرد و پیش کے لوگوں سے واقف اور نہ ان واقعات کا مجھے علم جو تمہیں اس وقت پیش آرہے ہوں گے۔ بے بس ہوں ورنہ تم تک کسی طرح پہنچتا اور اپنا خون بہاتا، مگر تمہاری نرگسی آنکھوں سے آنسو نہ نکلنے دیتا، لیکن اگر کسی قسم کا کام ہو تو خدارا اپنے غلام کو نہ بھولنا۔ اس وقت یہ نہ سوچو کہ میں کیا ہوں، کون ہوں بس اتنی سی بات یاد رکھو کہ خداوندِ عالم نے تمہاری خدمت کے لیے ایک مشین نما انسان بنادیا ہے جو تمہاری خوشی کے سامنے دنیا میں کسی امر کی پروا نہیں کرتا۔


خدا ہی تمہیں صبر دے، یہ غم عورت کے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ خدا تمہارے بچے کو اپنی حفاظت و امانت میں رکھے، وہ ابھی اس نعمت کی قدر کیا جانے جو اس سے چھین لی گئی ہے۔ تمہیں کو اب باپ اور ماں دونوں کے فرائض ادا کرنے ہیں ۔ میں تمہارے احکام کا ہر وقت منتظر رہوں گا۔‘‘


صابرہ نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن بیسواں چہلم وغیرہ جو نواب صاحب مرحوم کے لیے کیا گیا ان سب کی مجھے باقاعدہ اطلاع دی گئی اور میں ہر ایک رسم میں برابر شریک ہوا۔ اس آمد و رفت میں وہاں کے آدمیوں اور داروغہ وغیرہ سے ملاقات ہوگئی اور مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ نواب صاحب کا پانچ سو کا وثیقہ تھا اور شہر میں چند مکانات بھی تھے، جن سے خاصا کرایہ آتا تھا۔ جس مکان میں صابرہ مقیم تھی، وہ پرانے محلوں کی شان کا تھا، مردانہ اور زنانہ حصہ علیحدہ علیحدہ، کافی وسیع اور کشادہ تھا۔ لیکن چونکہ نواب صاحب کے بڑے بھائی اب تک حیات تھے، اس لیے یہ مکان دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک میں ان کے عیال رہتے تھے اور دوسرے میں صابرہ بیگم اور ان کا بچہ۔


چہلم کے بعد عدہ کی مدت تک صابرہ کی والدہ بیٹی کے ساتھ مقیم رہیں، لیکن جیسے ہی یہ مدت ختم ہوئی اسے اپنے ہمراہ لے کر اپنےگھر چلی آئیں۔ یہاں آنے پر صابرہ نے رسولن کے ذریعہ میرے پاس کہلایا کہ مجھے اس کے چچا سے مل کر تمام واقعات معلوم کرلینا چاہیے اور وثیقہ و مکان کا داخل خارج بچے کے نام کرادینا چاہیے۔ نیز اس کی ولایت کے متعلق ساری قانونی کارروائی کرڈالنا چاہیے۔ میں نے صابرہ کے میکے میں آنا جانا شروع کیا۔ دو ایک بار تو صابرہ کے چچا ’’بڑے صاحب‘‘ کا درمیان رہا پھر براہ راست صابرہ کے ہاں تمام قضیہ میں نے کہلانا شروع کیا۔ ادھر صابرہ کی سسرال والوں نے طرح طرح کے الجھاوے ڈالنا شروع کیے، بالآخر مقدمہ بازی تک نوبت آئی۔ میں بحمدہ اس امر میں کامیاب رہا، میں نے نواب صاحب کا وثیقہ اور تمام املاک صابرہ کے بچے کے لیے بچالی اور صابرہ کو باقاعدہ اس کی ولیہ عدالت سے تسلیم کرالیا۔


ان تمام معاملات کے سلجھانے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا۔ میری ہونے والی سسرال والے چونکہ صابرہ کے فریق مخالف کے ہمدردوں میں تھے، اس لیے مجھے ان کے ہاں رشتہ سے انکار کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اس کی اپیل اگر ہوسکتی تھی تو صابرہ ہی کے ہاں، لیکن اب وہاں تک ان لوگوں کی رسائی نہ تھی۔


ہمارے نجی معاملات اتنے ترقی پذیر ہوگئے تھے کہ زنانے اور مردانے حصے میں جو ٹیلیفون تھا،مجھے اس پر حاضر ہوکر ہر ہفتے مقدمات کے سلسلے میں صابرہ سے گفتگو کرنا پڑتی تھی۔ جس دن تک صاحب جج کی عدالت سے مقدمات کا آخری اور قطعی فیصلہ نہیں ہوگیا، میں نےکوئی بات سوائے قانون، گواہ اور مقدمے کے نہیں کی۔ میں ایک وکیل تھا اور صابرہ موکلہ۔ لیکن ۔۔۔ جب میں نے صاحب جج کی زبان سے فیصلہ اپنے موافق سُنا، تو میں کچہری کے سارے کام چھوڑ کر سیدھا صابرہ کے مکان پر پہنچا، ٹیلیفون کی گھنٹی بجائی اور صابرہ کے ’’ہلو‘‘ کہنے پر مبارکباد دی۔ وہ اپنے بچے کے حقوق کے محفوظ ہوجانے سے اس قدر خوش ہوئی کہ رونے لگی اور بھرائی ہوئی آواز میں رُک رک کے بولی۔


’’رشید صاحب آپ نے مجھ پر اور میرے بچے پر وہ احسانات کیے ہیں کہ ان کاشکریہ لفظوں میں ادا نہیں ہوسکتا۔‘‘


میں نے کہا ’’صابرہ غلاموں کاشکریہ ادا نہیں کیا کرتے۔‘‘


وہ بے ساختہ بول اٹھی۔ ’’وکیل صاحب میں تو خود کو آپ کی کنیز سمجھتی ہوں، آپ میرے محسن ہیں، میرے بچے کے محسن ہیں! للہ اب غلام کالفظ کبھی اپنے نام کے ساتھ نہ استعمال کیجیے گا۔ مجھے حددرجہ تکلیف ہوتی ہے۔‘‘


میں نے کہا ’’بہت خوب، لیکن پھر تم بھی کبھی شکریہ کا لفظ میرے بارےمیں نہ نکالنا، اس سے بوئے غیریت آتی ہے۔ میں نےجو کچھ کیا وہ میرا فرض تھا۔ میرا قانون پڑھنا اب جاکے سوارت ہوا۔‘‘


صابرہ نے کہا۔ ’’یہ آپ کی نیکی و شرافت ہے۔‘‘


میں نے کہا۔ ’’جی نہیں یہ میری خود غرصی و نفسانیت ہے۔‘‘


صابرہ کے لب و لہجہ سے استعجاب کا پتہ چلتا تھا۔ اس نے پوچھا ’’یہ کیونکر؟‘‘


میں نے کہا۔ ’’خودغرضی کا یہی تو تقاضا ہوتا ہے کہ جو کام کیا جائے وہ اس غرض سے کہ اس سے اپنی مصیبتیں گھٹیں، اپنی فکریں کم ہوں، اپنا درد دل زائل ہو، اپنے کو خوشی حاصل ہو اور اپنے قلب کو اطمینان و سکون حاصل ہو! میں نے بھی یہی کیا ہے اور صرف یہی! جس کام سے تمہاری تکلیفوں میں کمی ہوسکے، جس سے تمہارےآلام دور ہوں، جس سے تمہاری راحت میں اضافہ ہو، وہ میرے لیے سب سے زیادہ موجب انبساط و مسرت ہے، اس لیے میں نے جو کچھ اس معاملے میں کیا وہ محض اپنی ہی تکلیفوں کے کم کرنے کے لیے اور اپنی ہی مسرتوں میں اضافہ کی غرض سے۔ یہ اگر خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس میں کسی پر احسان کیسا اور مفت مفت کے شکریہ کی کہاں گنجائش؟‘‘


صابرہ دیر تک خاموش رہی، پھر رُک رک کے بولی۔ ’’تو پھر ۔۔۔ اتنی محبت ۔۔۔ اتنے ایثار کا ۔۔۔ کچھ تو عوض میری طرف سے بھی ہونا چاہیے۔‘‘


میں نے کہا۔ ’’اگر معاوضہ ہی لینا ہے تو پھر منہ مانگا ہی لوں گا۔‘‘


صابرہ نے کچھ گھبراکے کچھ ڈر کے پوچھا۔ ’’وہ کیا ہے؟‘‘


میں نے بہت ہی بیتابی سے کہا۔ ’’کیا آج آٹھ برس کی پرستش کے بعد بھی پوچھنے کی ضرورت ہے؟ تم اور صرف تم!‘‘


تھوڑی دیر سکوت رہا، پھر صابرہ آہستہ آہستہ بولی۔ ’’اگر آپ کی جگہ کسی دوسرے نے یہ بات کہی ہوتی تو شاید میں اس سے زندگی بھر کے لیے خفا ہوجاتی۔‘‘


میں نے عرض کیا۔ ’’آخر اس خفگی کانتیجہ کیا ہوتا؟ زاید سے زاید یہی کہ اس سے زندگی بھر نہ ملتیں، اپنے حضور میں آنے کی اجازت نہ دیتیں۔ تو غلام بادب عرض کرے گا خوشنودی کی حالت میں بھی تو اس پر یہ عتاب ہے، آخر خفگی و خوشی میں کیا فرق ہے؟‘‘


پھر تھوڑی دیر سکوت رہا۔ اس کے بعد جواب ملا۔ ’’اور یہ جو آپ سے باتیں کر رہی ہوں اور۔۔۔‘‘


جب وہ کہتے کہتے رُک گئی تو میں نے جواب دیا۔ ’’میں اس کا شکریہ ادا کرتاہوں لیکن شاید اتنا تو ہرموکلہ کو اپنے وکیل سے کرنا ہی پڑتا۔‘‘


صابرہ نے پوچھا۔ ’’اسی خلوص سے؟‘‘


میں نے کہا۔ ’’جی ہاں، ورنہ خلوص سے کام بھی نہ ہوتا۔‘‘


صابرہ خاموش ہوگئی۔ میں نے کہا ’’صابرہ مجھ سے اس طرح کی باتیں کرنے کانتیجہ تم جانتی ہو کہ مجھے دنیا میں صرف ایک چیز کی خواہش ہے اور وہ تمہاری ذات ہے۔ مجھے نہ دولت کی ضرورت ہے، نہ عزت کی، نہ وجاہت کی، میرے لیے ساری کائنات سمٹ کر صرف ایک ذات میں محدود ہوگئی ہے۔ مجھے اگر و ہ ذات نہ ملی تو میرے لیے زندگی ایک مستقل عذاب ہے۔ اور اس کے بعد کی زندگی کے لیے نہ مجھے جہنم کا ڈر اور نہ جنت کی پروا! ‘‘


صابرہ نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’رشید صاحب میں نے مانا آپ کو میری وجہ سے بڑی اذیتیں ہوئیں مگر اس کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ آپ دین و ایمان سب بھول کر جہنم و جنت سب سے انکار کرکے کفر بکنے لگیں!‘‘


میں نے غصہ میں کہا۔ ’’بیگم صاحبہ میں نے خدا اور رسول والی ہی بات کہی تھی جو آپ اس قدر برہم ہوگئیں کہ زندگی بھر کے لیے ناخوش ہونے کو تیار تھیں۔ کیا خدا نے بیوہ سے عقد کاحکم نہیں دیا؟ کیا رسول اللہ نے خود اس پر عمل کرکے نہیں دکھادیا ہے؟ لیکن آپ نے اسے گالی کے مترادف سمجھا۔ سوائے ہندوستان کے کسی ملک میں اسے نہ معیوب سمجھتے ہیں اور نہ خلاف عقل و شرع۔۔۔‘‘


صابرہ نے پھر بات کاٹ کے پوچھا۔ ’’اور ہم لوگ اس وقت کہاں ہیں؟ ہندوستان میں یا کسی اور ملک میں؟‘‘


میں نے کہا۔ ’’جی ہاں ہندوستان ہی میں ہیں۔ لیکن اب ہندوستان کے باشندے بھی نہ اسے معیوب سمجھتے ہیں اور نہ قابل مضحکہ۔ ہندوؤں نے یہ مذموم خیال اپنے دل سے نکال ڈالا۔ اب ان کے ہاں قابل شادی بیوائیں بٹھائی نہیں جاتیں اور نہ ان کے سرمونڈے جاتے ہیں۔‘‘


صابرہ نے کہا۔ ’’لیکن قابل شادی نا؟ یہاں قابل شادی کون ہے؟ جس کا کافی سن آچکا ہو، ایک بچہ کی ماں ہوچکی ہو اور اپنے بڑھاپے کے تمام آثار پاتی ہو، وہ قابل شادی کیونکر ہوسکتی ہے؟‘‘


میں نے کہا۔ ’’صابرہ خدا کے لیے ہارے ہوئے حریف کی طرح جھوٹ بولنے پر نہ اترآؤ۔ تم اپنے سن و سال کے متعلق اس شخص سے گفتگو کر رہی ہو جو ایک سال سے تمہارا وکیل ہے اور آٹھ برس سے تمہارا عاشق ہے۔ کیا مجھے اتنا بھی حساب نہیں آتا کہ میں پندرہ میں آٹھ جوڑلوں اور اپنی عمر میں بھی اتنے ہی برسوں کا اضافہ کرلوں؟ اگر تم تئیس برس کی ہوئیں تو میں بھی تیس برس کا، پھر شادی سے اور سن سے کیا تعلق؟ میری اور تمہاری محبت بھی بوالہوسی اور حیوانیت پر مبنی ہے کہ ہمارے عقد میں بھی جسمانی حیثیت و کیفیات کا لحاظ کیا جائے؟ صابرہ بیگم یہ جسم کی نہیں روح کی پیاس ہے! اسے سوائے تمہارے سارے عالم کے دریاؤں کا پانی، یہاں تک کہ کوثر و تسنیم کا آبِ شیریں بھی نہیں بجھا سکتا۔‘‘


صابرہ نے کہا۔ ’’لیکن وہ چشمہ جس سے آپ سیراب ہونا چاہتے ہیں اب خشک ہوگیا!‘‘


میں نے خوفزدہ آواز میں دریافت کیا۔ ’’کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں رہی؟‘‘


صابرہ نے کہا۔ ’’میں نے شاید مثال دینے میں غلطی کی۔ چشمہ خشک نہیں ہوا ، بلکہ وہ اس قدر گندہ کردیا گیا ہے کہ وہ اب آپ کی پیاس بجھانے کے قابل نہیں رہا۔‘‘


میں نے پوچھا ’’یعنی؟‘‘


وہ بولی۔ ’’یعنی یہ کہ میری محبت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ میں کسی اور کی بیوی بننے کے بعد آپ کی بنوں۔‘‘


میں نے پوچھا۔ ’’یہ محبت کس کی، جس کی بیوی تھیں یا میری؟‘‘


وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’آپ کی!‘‘


میں نے کہا۔ ’’یہ اظہار محبت کا بالکل ہی انوکھا طریقہ ہے کہ چونکہ تمہیں مجھ سےمحبت ہے، اس لئے میں ہمیشہ کے لیے محروم بنادیا جاؤں۔‘‘


صابرہ نے کہا۔ ’’جی نہیں یہ آپ کو ایک طرح کی خودکشی سے بچانا ہے!‘‘


صابرہ یہیں تک کہنے پائی تھی کہ ایک معظمہ کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ وہ غالباً ادھر متوجہ ہوئی اس لیے کہ کسی نے پوچھا۔ ’’کون ہے بیٹا، وکیل صاحب؟‘‘


صابرہ نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘انہوں نے کہا ’’میری طرف سے ان کو دعا کہو۔‘‘


میں ٹیلیفون سے سن رہا تھا۔ میں نے صابرہ کو پیغام کی زحمت سے بچایا اور خود اس سے تسلیم کرنے کو کہا اور مقدمہ جیتنے کی مبارکباد دی۔ وہ خود ٹیلیفون لے کر دعائیں دے کے بولیں۔ خدا آپ کو بھی مبارک کرے یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے۔ آپ نے میرے یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے محتاجی اور غریبی سے بچالیا، خدا آپ کو اجر دے گا۔ ہم غریب دکھیاریوں کے پاس کیا ہے جو ہم اس کا بدلہ کرسکیں۔ مگر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ اگر صابرہ اور اس کا لڑکا شریف ہیں، تو دونوں یہ احسان کسی وقت نہ بھولیں گے اور جان و مال، عزت و آبرو کسی چیز سے آپ کے معاملے میں دریغ نہ کریں گے۔‘‘


میں نے عرض کیا۔ ’’یہ آپ کیا فرماتی ہیں، یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘


وہ بولیں ’’میاں یہ تمہاری شرافت ہے کہ تم ایسا کہتے ہو، مجھے تو جہاں تک معلوم ہے تمہیں شاید اب تک کوئی فیس بھی نہیں دی گئی ہے۔‘‘


بظاہر معظمہ نے صابرہ سے اس کی تصدیق چاہی اس لیے کہ وہ کہتی ہوئی سنائی دی کہ ’’امی میں تو کہتے کہتے تھک گئی۔ اب آپ بھی ارشاد فرماکے دیکھ لیجیے۔‘‘


معظمہ مجھ سے مخاطب ہوئیں۔ ’’کیوں میاں یہ کیا سنتی ہوں کہ تم فیس نہیں لینا چاہتے؟‘‘


میں نے حجاب و شرم کو بالائے طاق رکھ کر موقع سے فائدہ اٹھایا اور عرض کیا۔ ’’بیگم صاحبہ یہ کس نے کہا کہ میں فیس نہیں لینا چاہتا۔ میں تو حضور خود مانگ رہا ہوں۔‘‘


وہ بولیں۔ ’’صابرہ کہتی ہے میں فیس دینا چاہتی ہوں وہ نہیں لیتے۔‘‘


میں نےعرض کیا۔ ’’جی ان کا بھی فرمانا ایک حدتک صحیح ہے اور جو کچھ میں نےعرض کیا وہ بھی صحیح ہے۔‘‘


وہ بولیں۔ ’’بھئی میں یہ پہیلی نہیں بوجھی۔ وہ بھی سچی آپ بھی سچے۔ وہ کہتی ہے آپ فیس نہیں لیتے، آپ کہتے ہیں میں مانگ رہا ہوں وہ نہیں دیتیں۔ آخر معمہ کیا ہے؟‘‘


میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔ ’’بیگم صاحبہ آپ نے ابھی اپنی عزت افزائی اور بندہ نوازی سے یہ فرمایا تھا کہ تونے وہ کام کیا ہے کہ صابرہ بیگم اور ان کے صاحبزادے کو چاہیے کہ وہ تیرے لیے جان و مال عزت آبرو تک دریغ نہ کریں۔‘‘


وہ فرمانے لگیں۔ ’’میں تو اب بھی کہتی ہوں کہ اگر یہ لوگ ایسا نہ کریں تو شریف نہیں۔ جس شخص نے ایک سال سے اپنا خون پانی ایک کردیا ہو۔ اپنے پیشہ کا کام ان کے پیچھے خراب کردیا ہو، دنیا بھر سے ان کے کارن دشمنی مول لی ہو، جس نے ویسی ہمدردی کی ہو جیسی سگا باپ او رحقیقی بھائی مشکل سے کرتا ہو، اس کا احسان بھول جانا کمینوں کا کام ہے، شریفوں کا نہیں۔‘‘


میں نے کہا۔ ’’تو معظمہ اس طرح کے کام کی فیس تو صابرہ بیگم نہیں ادا کرسکتی ہیں، حضور ہی عطا فرماسکتی ہیں۔‘‘


وہ بہت ہی سادگی سے بولیں۔ ’’تومیاں تم بتاؤ تو سہی۔ آخر کیا فیس ہوئی، میں ہی ادا کروں گی، تم میرے ہاتھ سے لے لینا۔‘‘


میں نے رُکتے رکتے عرض کیا۔ ’’تو حضور میں تو اپنی محنت کی فیس یہی سمجھتا ہوں کہ حضور مجھے اس کا حق عطا فرمادیں کہ میں تمام عمر اسی طرح آپ کی صاحبزادی اور آپ کے نواسے کی خدمتیں کرتارہوں۔‘‘


وہ بےچاری اس گھماؤ کی بات کو نہ سمجھیں۔ گھبراکے بیٹی سے پوچھنےلگیں کہ ’’وکیل صاحب کیا فیس مانگتے ہیں۔ ان کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘


وہ بولیں۔’’ امی ٹیلیفون پر آپ سے انھوں نے کیا کہا میں اسے کیا جانوں، آپ انھیں سے پوچھئے وہ خود ہی اپنامطلب بتائیں گے۔‘‘


جتنی دیر ماں بیٹی میں گفتگو ہوئی اتنی دیر میں میں نے جملہ ذہن میں ترتیب دے لیا تھا۔ اس لیے قبل اس کے کہ بیگم صاحبہ مجھ سے کچھ پوچھیں میں نے عرض کیا: ’’جناب معظمہ نے میرا مطلب نہیں سمجھا، میں یہ چاہتا ہوں کہ حضور اپنے اس غلام کو اپنی فرزندی میں لے لیں۔‘‘


بیگم صاحبہ میرا یہ فقرہ سنتے ہی ساکت ہوگئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سکوت کاباعث استعجاب تھا یا غصہ۔ البتہ میری حالت یہ تھی کہ پنکھے لگے تھے، دل بیلوں اچھل رہا تھا دیکھیے اتنے دنوں کی امیدوں پر پانی پھرجاتاہے، یا سوکھے دھانوں پانی پڑتا ہے ۔ ساری عمرکا اضطراب چند لمحوں میں آکے جمع ہوگیا تھا۔ تین بار پیشانی سے پسینہ پونچھا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھرائی۔ شاید محشر کے دن قبل فیصلہ یہی کیفیت ہوگی! بارے مہر سکوت ٹوٹی۔ بیگم صاحبہ آہستہ آہستہ بولیں:


’’میاں تم نے اس وقت اچانک ایسی خواہش پیش کردی جو خواب و خیال میں بھی نہیں آئی تھی، میں بڑے سوچ میں پڑ گئی کہ تمہیں کیا جواب دوں۔‘‘


میں نے جلدی سے عرض کیا ’’حضور میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے اسی وقت جواب مل جائے، حضور میری ذات، میرےخاندان کے متعلق دریافت فرمالیں۔ میرے چال چلن کی تحقیق کرلیں۔‘‘


وہ بولیں۔ ’’نہیں میاں، تمہارے چال چلن، تمہاری شرافت اور نیکی سے کون واقف نہیں ہے۔ پھر پڑھے لکھے، دال روٹی سے خوش، اللہ رکھے تم ہی ہو، مجھے ان باتوں کی فکر نہیں۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اب صابرہ کنواری، بن بیاہی نہیں ہے، بیوہ، بچے والی ہے، اب اس کی خواہش و رضامندی ضروری ہے۔ ذرا اس کاعندیہ لے لوں اور دوسرے اعزا سے پوچھ گچھ لوں۔‘‘


میں نے کہا۔ ’’تو مجھے اس وقت اجازت دیجیے۔ پھر انشاء اللہ ضرورت ہوگی تو حاضر ہوں گا۔‘‘


انھوں نے فرمایا۔ ’’اچھا خدا کو سونپا۔ سدھارو۔‘‘ میں نے تسلیم کی اور وہاں سے چلا آیا۔ رات کو رسولن ایک خط لے کر آئی۔ صابرہ نے لکھا تھا:


’’یہ آخر آپ کی عقل کوکیا ہوگیا ہے کہ دوستی اور دشمنی کی باتوں میں فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اور اپنی دھن میں چھوٹے بڑے کی تمیز بھی کھو بیٹھے۔ امی سے بھلااس طرح کی خواہش کاکیا موقع تھا؟ وہ میرا بھلا دیکھیں گی یا آپ کا؟ میں آپ سے منت کرتی ہوں کہ اب سے اپنے خیال سے باز آئیے۔ میں ڈھلتی ہوئی دھوپ ہوں جس میں نہ آپ کو کوئی چمک دمک نظر آئے گی اور نہ کسی قسم کی گرمی محسوس ہوگی۔ میرے ہاں اچھی طرح خزاں آچکی ہے۔ آپ کے ابھی بہار کے دن ہیں۔ اپنی جوانی پر رحم کیجیے اور اس خیال بد کو دل سے نکال ڈالیے۔‘‘


میں نے جواب میں لکھا:


’’مجھے ڈھلتی ہوئی دھوپ اور خزاں یافتہ بہار پسند ہے، خود میری محبت میں اتنی جدت ہے کہ وہ برودت کا سارا مخزن جلاسکتی ہے۔ میرے دل کی آگ، تم کیا ہو، برف کی قاش میں بھی حرارت پیدا کرسکتی ہے! صابرہ بیگم صاحبہ! آپ میری ناصح و مشفق نہ بنیں بلکہ اس محبت کا مظاہرہ فرمائیں جس میں علیحدگی و جدائی کی جگہ اتحاد و اتصال کی خواہش کی جاتی ہے۔ میں صاف صاف عرض کیے دیتا ہوں کہ اگر اب بھی انکار کیا گیا تو مجھے اس امر کا یقین آجائے گا کہ میں آج ہی نہیں بلکہ پورے آٹھ سال سے بیوقوف بنایا جارہا ہوں اور پژمردہ کلیوں کے تحفے نے جس امید کو ہرسال تازہ کیا تھا وہ محض موہوم تھی۔ اس یقین کے بعد میرا کیا حال ہوگا اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ ابھی تک تو خیال تھا کہ ’’بریں زیستم و بریں بگزرم‘‘ لیکن جب یہ امید بھی جاتی رہے تو میری حالت اس عمارت کی ہوگی جس کا ستون اچانک گرادیا جائے اور جس کی بنیاد کھود کر پھینک دی جائے۔ للہ اب زیادہ دل نہ دکھائیے!


رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے۔


اِس خط کا کوئی جواب نہ ملا۔ لیکن تیسرے دن بیگم صاحبہ کی مہری ان کا خط لے کر آئی، لکھا تھا:


’’جس رشتے کی خواہش کی گئی تھی وہ مجھے اور تمام اعزا کو دل و جان سے پسند ہے، مگر صابرہ نہ سر سے کھیلتی ہے اورنہ منھ سے بولتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔‘‘


میں نے مہری سے کہا کہ ’’اچھا تم جاؤ میں جواب بھیج دوں گا اور صابرہ کو خط لکھا:


’’بیگم صاحبہ کی رضامندی کا صحیفہ آگیا، لیکن آپ کے ہاں ابھی وہی ضد جاری ہے۔ خیر میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ آج آپ کے سارے پچھلے خطوط اور ہرسال کی پژمردہ کلیاں اسی لفافہ میں ارسال ہیں، یا تو آپ ان کے عوض ایک تازہ پھول بھیج کر میری استدعا قبول فرمائیں گی یا پھر اپنے سکوت سے اس امر کو واضح فرمادیں گی کہ میری زندگی کاسب سے بہتر و شیریں خواب منت کش تعبیر نہ ہوگا! میں ۲۴گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد اس طرح روپوش ہوجاؤں گا کہ انشاء اللہ تمام عمر آپ کو پتہ بھی نہ مل سکے گا۔‘‘


کچھ ہی دیر بعد جواب آیا۔ ’’آپ خفا نہ ہوں، پھول جاتا ہے، مگر باسی ہے!‘‘


میں نے بڑی سرمستی و خوشی سے لکھا۔ ’’کچھ پروا نہیں۔ میں اسی پھول کو خونِ دل سے سینچ کر پھر تروتازہ کرلوں گا۔‘‘


اسی دن بیگم صاحبہ کو بھی اطلاع ہوگئی۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ آج تک وہ پھول میری دستار کازیب ہے اور بحمدہ اب تک تروتازہ ہے۔


ان کے گلے کے باسی ہار، دیتے ہیں بوئے جانفزا
جن پر خزاں سی آچلی، ہیں وہی گل بہار پر