بستی میں زندگی کے نشاں تک نہیں رہے
بستی میں زندگی کے نشاں تک نہیں رہے ایسی ہوا چلی کہ مکاں تک نہیں رہے سیلاب ساتھ لے گیا ساحل کو اس لئے تنکوں سے مرا ربط وہاں تک نہیں رہے سورج ہنسا تو رات کے سائے تمام تر یوں مٹ گئے کہ ان کے نشاں تک نہیں رہے اپنا شعور و فکر ہے اپنی ادھیڑ بن ہم لوگ اب کسی پہ گراں تک نہیں رہے کی جن کے ...