سوچتا ہوں کہ حال کیا ہوگا
سوچتا ہوں کہ حال کیا ہوگا
غم ترا دل سے جب جدا ہوگا
میرا غم سن کے اور کیا ہوگا
فتنہ گر مسکرا دیا ہوگا
خوبرو بے وفا بہت دیکھے
کوئی تم سا نہ بے وفا ہوگا
لے چلا ہے دل ان کی محفل میں
نہیں معلوم حشر کیا ہوگا
کر بھلائی کو عام دنیا میں
کہ بھلائی کا پھل بھلا ہوگا
فصل گل کی نہ بات کر اے دوست
جوش وحشت مرا سوا ہوگا
ماسوا ساغر و سبو کے نریشؔ
اور رندوں کے پاس کیا ہوگا