ستم گروں کی اطاعت قبول کرتا ہے

ستم گروں کی اطاعت قبول کرتا ہے
جدید دور کا انساں بھی بھول کرتا ہے


تمام اعضا ہیں گمراہ امتوں کی طرح
بس ایک دل ہے جو کار رسول کرتا ہے


بڑی عظیم دعا سے نواز کر سائل
بہت حقیر سی قیمت وصول کرتا ہے


کہاں مہکتے تھے پہلے مرے در و دیوار
یہ کام اس کی محبت کا پھول کرتا ہے


فسانہ چھیڑ کے گزرے ہوئے زمانے کا
وہ اپنے ساتھ مجھے بھی ملول کرتا ہے


ہمارے بس میں نہیں ہے محبتوں کا نظام
وہ ہم سے حرف شکایت فضول کرتا ہے


مجھے تو رقص بھی کرنے کا فن نہیں آتا
زمانہ کس لیے میری نقول کرتا ہے


بچھڑ گیا ہے کوئی تو کوئی ملے گا بھی
ریاضؔ کس لیے خود کو ملول کرتا ہے