کوئی انمول شے پائی ہوئی سی لگ رہی ہے
کوئی انمول شے پائی ہوئی سی لگ رہی ہے
کہ چہرے پر چمک آئی ہوئی سی لگ رہی ہے
تسلسل ہے خنک سایوں کا جو حد نظر تک
فضا میں زلف لہرائی ہوئی سی لگ رہی ہے
گیا ہے کون اٹھ کر آج اس بزم جہاں سے
اداسی ہر طرف چھائی ہوئی سی لگ رہی ہے
کہیں ہم دیکھتے ہیں بے حسی پر خوف طاری
کہیں غیرت بھی تھرائی ہوئی سی لگ رہی ہے
تجھے روتے ہوئے اس نے کہیں دیکھا ہے شاید
کہ شبنم آج شرمائی ہوئی سی لگ رہی ہے
ابھی کچھ دیر پہلے اس قدر خوشبو کہاں تھی
یہ محفل تیری مہکائی ہوئی سی لگ رہی ہے
تصور میں نہ جانے آ گیا ہے کس کا چہرہ
طبیعت آج للچائی ہوئی سی لگ رہی ہے