لذت وصل مختصر مت رکھ

لذت وصل مختصر مت رکھ
شب کی تقدیر میں سحر مت رکھ


آگ کرتی نہیں کسی کا لحاظ
بانس کے جنگلوں میں گھر مت رکھ


رزق بھی بے سبب نہیں ملتا
اپنے بچوں کو بے ہنر مت رکھ


تجھ کو صحرا میں رقص کرنا ہے
پاؤں سے باندھ کر بھنور مت رکھ


غیر ممکن نہیں فلک کی سیر
ناامیدی کو ہم سفر مت رکھ


تجھ کو سونا ہے قبر میں اپنی
میرے اعمال پر نظر مت رکھ


گفتگو چل رہی ہے تاروں سے
شام کی آنکھ میں سحر مت رکھ