حادثے سب بے سبب کیسے ہوئے
حادثے سب بے سبب کیسے ہوئے
بہتے دریا تشنہ لب کیسے ہوئے
گھر سے باہر بھی مہذب لوگ ہیں
میرے بچے بے ادب کیسے ہوئے
جنگلوں کے باسیوں کو کیا خبر
حادثات شہر کب کیسے ہوئے
سیکڑوں تھے شہر میں سورج بدن
چاند تارے منتخب کیسے ہوئے
کوئی تو ہوتا مرا پرسان حال
بے مروت سب کے سب کیسے ہوئے
شہر میں تو اور بھی رہتے ہیں یار
ہم پہ ہی قہر و غضب کیسے ہوئے
ڈگریاں تو چند ہی لوگوں پہ تھیں
شہر میں اتنے مطب کیسے ہوئے