ستم سہتے ہوئے ہر دن نئی خواہش سے ڈرتا ہوں
ستم سہتے ہوئے ہر دن نئی خواہش سے ڈرتا ہوں
مری آنکھوں میں غم ہے اور میں بارش سے ڈرتا ہوں
مری پاکیزگی نے ہی بنایا ہے مجھے منصف
سو میں انصاف کرتے وقت ہر لغزش سے ڈرتا ہوں
دلوں کی وسعتوں کو بانٹ ہی سکتی نہیں دنیا
میں قسطوں میں بنٹا ہوں اور پیمائش سے ڈرتا ہوں
جلاتا ہوں محبت کے دئے نفرت کے آنگن میں
نظر رکھتا ہوں دشمن پر ہر اک شورش سے ڈرتا ہوں
مری آوارگی مجھ کو کہیں رکنے نہیں دیتی
پرندہ ہوں رہائش کی ہر اک خواہش سے ڈرتا ہوں
غزل میں جستجو رکھتا ہوں میں مفہوم تازہ کا
مرے ناقد میں خود لفظوں کی آرائش سے ڈرتا ہوں
عجب احساس کی منزل پہ آ پہنچا ہوں اے راہیؔ
لگاتا ہوں دلوں میں آگ اور جنبش سے ڈرتا ہوں