جن کو اپنی راہوں میں دقتیں نہیں ملتی (ردیف .. ن)
جن کو اپنی راہوں میں دقتیں نہیں ملتی
ان کو اپنی منزل کی صحبتیں نہیں ملتی
خون میرے سینے کا آنکھ تک نہیں آیا
اتنی جلد غزلوں کو شہرتیں نہیں ملتی
دور رہ کے وہ مجھ سے تھا قریب تر کتنا
پاس رہ کے کیوں اس کی قربتیں نہیں ملتیں
اک پکار سنتے ہی جا رہا ہوں مقتل میں
روز روز دشمن کی دعوتیں نہیں ملتیں
جس کے دل میں رہتی ہے صرف آپ کی صورت
اس کو راہ دنیا کی آفتیں نہیں ملتیں
ہم کو مل گئی ہوتی اپنے عشق کی منزل
گر ہمیں یہ دنیا کی تہمتیں نہیں ملتیں
اپنی دھن کے راہیؔ کو راہ کیا بتاتے ہو
ہم سے تیری دنیا کی عادتیں نہیں ملتیں