رنگ اشکوں کا بدلنے بھی نہیں دیتا وہ
رنگ اشکوں کا بدلنے بھی نہیں دیتا وہ
اور مجھے گھر سے نکلنے بھی نہیں دیتا وہ
ڈستا رہتا ہے بہت میری انا کو پل پل
اپنی قربت سے نکلنے بھی نہیں دیتا وہ
ضبط چہرے کی تمازت سے عیاں ہے لیکن
میری آنکھوں کو ابلنے بھی نہیں دیتا وہ
کاغذ دل کو بھگوتا ہے نئے اشکوں سے
پھر یہ کاغذ کبھی جلنے بھی نہیں دیتا وہ
بس ڈراتا ہے کہ اس راہ پہ پھسلن ہے بہت
عشق کی راہ پہ چلنے بھی نہیں دیتا وہ
چاہتا ہے کہ میں گر جاؤں نظر سے اس کی
اس لئے مجھ کو سنبھلنے بھی نہیں دیتا وہ
میرے کردار میں ڈھلتا بھی نہیں خود راہیؔ
اپنے کردار میں ڈھلنے بھی نہیں دیتا وہ