ستم اہل کرم فرما رہے ہیں
ستم اہل کرم فرما رہے ہیں
وفاؤں کو پسینے آ رہے ہیں
اٹھائے ہیں جو پتھر ماریئے گا
توقف آپ کیوں فرما رہے ہیں
غزل کو خون دل سے آب دے کر
معانی ہم نئے پہنا رہے ہیں
مجھے میری جوانی کے تقاضے
تمناؤں سے کیوں الجھا رہے ہیں
سر محفل غزل جو ناروا تھی
اسے تنہائی میں خود گا رہے ہیں
نہ انجمؔ داستان دل سناؤ
وہ دیکھو لوگ اٹھ کر جا رہے ہیں