دیکھ کر لوگ ہوئے ششدر و حیران مجھے
دیکھ کر لوگ ہوئے ششدر و حیران مجھے
تو کہاں ہے شب غم آن کے پہچان مجھے
قیس و فرہاد ہر اک گام پہ آتے ہیں نظر
جانے کس دشت میں لایا مرا وجدان مجھے
وقت کا ہے یہ تقاضا کہ میں اب چپ نہ رہوں
آپ کیوں دیکھ کے ہونے لگے حیران مجھے
اب تو ہر پھول بھی کانٹے سے سوا لگتا ہے
گلشن زیست نظر آتا ہے ویران مجھے
آپ کے جانے سے محسوس کیا ہے دل نے
زندگی چھوڑ گئی بے سر و سامان مجھے
مشکلیں میری طبیعت کو ہیں مرغوب بہت
زندگی چاہیے ہرگز نہیں آسان مجھے