کچھ نہیں دنیا بدل جانے کی غم خوانی مجھے
کچھ نہیں دنیا بدل جانے کی غم خوانی مجھے
ہاں مگر خود کے تغیر پہ ہے حیرانی مجھے
دشت سے لوٹا تو میں ہوں اک بگولے کا خمیر
دیکھتی ہے کس نظر سے گھر کی ویرانی مجھے
اک زمانے سے سوئے بازار میں نکلا نہیں
درس دیتی ہے بہت یوسف کی ارزانی مجھے
سن لیے بکھرے ہوئے غم میں نے راتوں کے تمام
ہائے اے دنیا ابھی تک تو نہیں پہچانی مجھے
اہل انجمؔ ایک دن وہ بھی زمانہ آئے گا
راس آئے گی زمین فن کی سلطانی مجھے