سمٹ رہا ہے وفا کا آنچل حصار وحشت مچل رہا ہے

سمٹ رہا ہے وفا کا آنچل حصار وحشت مچل رہا ہے
عجیب ان ہونیوں کے ڈر سے ہمارا سینا دہل رہا ہے


یہ دشت کانٹوں سے پھل رہا ہے یہ کیسا پربت اچھل رہا ہے
زمیں کہ بارود ہو چکی ہے فلک کہ شعلہ اگل رہا ہے


یہ میرے اپنے یہ میرے شاعر جو رفتہ رفتہ گزر رہے ہیں
خدا کی آنکھیں مچی ہوئی ہیں ندی کا پانی ابل رہا ہے


یہ دور حاضر کی بے حسی ہے یا اک بگلے کی شکل کوئی
جو میرے چشمے کی مچھلیوں کو اک ایک کر کے نگل رہا ہے


میں گاہے گاہے قضا سے آگے قدم بڑھائے گزر رہا ہوں
کہ چوہا بلی سے تیز رو میں خودی سے آگے نکل رہا ہے


وہ جیسے رنگ گلال بھی ہو وہ جیسے باب وصال بھی ہو
وہ یعنی شاعر کا خواب ہے جو ہمارے سینہ میں پل رہا ہے