موسم کی مار وقت کا کوڑا ہے میری سمت
موسم کی مار وقت کا کوڑا ہے میری سمت
اب جو بھی جس طرح بھی ہے اچھا ہے میری سمت
سوچوں تو سو ملال مجھے سانس سانس پر
دیکھوں تو ایک آگ کا دریا ہے میری سمت
دریا کے پکشپات پہ اب کیا کہیں کہ جو
اتھلا ہے تیری سمت تو گہرا ہے میری سمت
ایسی اداس رات کہ کاٹے نہیں کٹے
بام و افق پہ چھایا اندھیرا ہے میری سمت
میں وہ شجر ہوں جس کی سبھی پتیوں میں چھید
میں وہ کماں ہوں جس کا نشانہ ہے میری سمت
آنکھوں کا دشت خواب کی لپٹوں سے جل گیا
اور اس کے باوجود جو سبزہ ہے میری سمت
اک روشنی جو فکر میں اتری ہے غیب سے
اک باغ لفظ کھلتے ہی مہکا ہے میری سمت