شہر وحشت مری تنہائی مجھے واپس کر
شہر وحشت مری تنہائی مجھے واپس کر
ہاں تجھی سے کہا ہرجائی مجھے واپس کر
میری بجھتی ہوئی آنکھوں کا سبب ہے تو ہی
مجھ کو چھو کر مری بینائی مجھے واپس کر
میری پیشانی پہ رکھے ہوئے بوسے اپنے
پونچھ لے جا مری دانائی مجھے واپس کر
تیری نفرت ترے خنجر ہوں مبارک تجھ کو
میں مسیحا تھا مسیحائی مجھے واپس کر
اس نے جاتے ہوئے کیا کیا نہ کہا پر مجھ کو
بس یہی بات سمجھ آئی مجھے واپس کر
موج خوں سر سے گزرنے کی گھڑی آئی ہے
زخم کہتا ہے یہ پروائی مجھے واپس کر