شور ہے چیخ ہے صدا ہے غزل
شور ہے چیخ ہے صدا ہے غزل
زخم ہے درد ہے دوا ہے غزل
آرزو شوق چاہ چین سکوں
کرب ہے ضبط ہے بکا ہے غزل
ہجر میں بھی شب فراق میں بھی
ہم سفر بھی ہے ہم نوا ہے غزل
ماہ و انجم بھی چاند سورج بھی
جس میں رہتے ہیں وہ سما ہے غزل
میں تھا مدہوش دید چشم غزال
ہوش میں لانے کی ہوا ہے غزل
اشک آنکھوں کے پوچھنے کے لئے
میری چادر مری ردا ہے غزل
درد جتنے چھپے ہیں پہلو میں
راز سارے تمہیں پتہ ہے غزل
خوب صورت کوئی نہیں دکھتا
میری خاطر جو مہ لقا ہے غزل
میرے حالات نے وفا نہ کیا
غم نہیں کیونکہ با وفا ہے غزل
میری تنہائی کی یہ ساتھی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بلا ہے غزل
اشک پلکوں تلک نہ آنے دیا
کتنی معصوم و با حیا ہے غزل
رعب ہو خوف یا پشیمانی
کوئی تجھ میں نہیں دکھا ہے غزل
میری خاموشیوں کو توڑنے کا
وہ قریں میرے اسلحہ ہے غزل
میرے دل کا اشارہ جانتی ہے
اس قدر مجھ سے آشنا ہے غزل
نثر میں خوب آتی رہتی ہے
شعر میں جانے کیوں خفا ہے غزل
مجھ سے پوچھا گیا ملو گے کہاں
میں نے کاغذ پہ لکھ دیا ہے غزل