شوخیاں مجھ پہ کیوں آشکارہ نہیں

شوخیاں مجھ پہ کیوں آشکارہ نہیں
کیا مرا دل محبت کا مارا نہیں


کیا کوئی ایسا لمحہ بھی گزرا ہے جب
شیشۂ دل میں تجھ کو اتارا نہیں


اک زمانہ ہوا آنسوؤں کے بنا
رات کاٹی نہیں دن گزارا نہیں


شوق سے عشق کا امتحاں لیجئے
آج بھی میں تھکا اور ہارا نہیں


تھامتے ہی کلائی وہ کہنے لگے
اب خدارا نہیں اب خدارا نہیں


شام ہی سے اندھیرا ہے چاروں طرف
ایسا لگتا ہے یہ گھر ہمارا نہیں


اس سلگتی سی دنیا میں تشنہؔ کوئی
کاش کہتا کہ وہ غم کا مارا نہیں