شکوۂ دور جام ہے ساقی
شکوۂ دور جام ہے ساقی
زندگی تشنہ کام ہے ساقی
روک دے گردش زمانہ کو
تیرے ہاتھوں میں جام ہے ساقی
فرصت بر و اجر کس کو ہو
زندگی تیز گام ہے ساقی
مے کا پینا حرام ہو کہ نہ ہو
نہ پلانا حرام ہے ساقی
در حقیقت حیات و موت ابھی
قصۂ ناتمام ہے ساقی
طالب انتقام کیوں کر ہوں
عمر خود انتقام ہے ساقی
آنکھ ملتے ہی کر دیا مدہوش
یہ تمہارا ہی کام ہے ساقی
ہم چراغ حرؔ سہی لیکن
میکدے کی تو شام ہے ساقی