شدت درد کو کچھ اور بڑھا سکتا ہے
شدت درد کو کچھ اور بڑھا سکتا ہے
قید تنہائی کا غم آپ کو کھا سکتا ہے
منتظر رہتا نہیں ہے وہ کسی لمحے کا
غم کا بادل تو کسی وقت بھی چھا سکتا ہے
یا وہ قطرہ ہے مرا دل جو رہے آنکھوں میں
یا وہ دریا ہے جو کوزے میں سما سکتا ہے
غم بھلانے کو اسے دے دوں دلاسہ لیکن
یہ دلاسہ اسے غم یاد دلا سکتا ہے
دوست مجھ کو جو بناتا ہے غرض کی خاطر
وقت پر ہاتھ وہ دشمن سے ملا سکتا ہے
جشن خوشیوں کا مناتا ہی نہیں ہے جو کبھی
عین ممکن ہے وہ ہر درد چھپا سکتا ہے
گردن امن پہ دہشت کی چھری ہے انجمؔ
کون ایسے میں پھر آواز اٹھا سکتا ہے