شوق میں حال سے بے حال ہوئے جاتے ہیں
شوق میں حال سے بے حال ہوئے جاتے ہیں
ہم تری راہ میں پامال ہوئے جاتے ہیں
کیا ستم ہے کہ ترے ہجر میں رفتہ رفتہ
اب شب و روز مہ و سال ہوئے جاتے ہیں
آپ کی یاد نے پھر آ کے مجھے چھیڑ دیا
آج پھر اشک وفا لال ہوئے جاتے ہیں
کہیے کیا ان کے مقدر کو زہے بخت رسا
تیرے قدموں میں جو پامال ہوئے جاتے ہیں
نا مرادی میں یہ اسباب فراغت رزمیؔ
زندگی کے لیے جنجال ہوئے جاتے ہیں