اک عمر میں اب سمجھا دنیا کا یہ حاصل تھا
اک عمر میں اب سمجھا دنیا کا یہ حاصل تھا
جو نقش تھا دھوکا تھا جو رنگ تھا باطل تھا
ہنگامۂ ہستی سے فرصت جو ملی دیکھا
اک داغ ندامت ہی کل زیست کا حاصل تھا
اے موج لب دریا سر پیٹ نہ تو اپنا
جو غرق ہوا اس میں آزردۂ ساحل تھا
کچھ ذوق سماعت ہی دنیا کو نہ تھا ورنہ
ہر ساز خموشی میں اک زمزمۂ دل تھا
طوفان حوادث میں جب غور کیا میں نے
خود آپ ہی دریا تھا خود آپ ہی ساحل تھا
دنیائے محبت میں کعبہ تھا نہ بت خانہ
ہر نقش قدم تیرا ایک سجدہ گہہ دل تھا
ہر سانس سے پیدا تھا اک محشر رسوائی
مانا کہ ترا رزمیؔ خاموش تھا غافل تھا