جس طرح آج گرفتار وطن سے نکلے

جس طرح آج گرفتار وطن سے نکلے
نامرادانہ کوئی یوں نہ چمن سے نکلے


طوق و زنجیر پہن کر تو بن آئی نہ مراد
شاید اب کام وفا دار و رسن سے نکلے


ہم نے دیکھے ہیں بہت گردش ایام کے رنگ
بارہا کشمکش چرخ کہن سے نکلے


شادماں ہو کے سہی سختئ زنداں فرنگ
مسکراتے ہوئے ہم قید و محن سے نکلے


بے خطر کود پڑے آگ کے طوفانوں میں
خون میں تیر کے سیلاب زمن سے نکلے


جان پر کھیل گئے آگ کے طوفانوں میں
پر نہ ہم دب کے کہیں چرخ کہن سے نکلے