شرمندگیٔ دل کو چھپاؤ گے کہاں تک
شرمندگیٔ دل کو چھپاؤ گے کہاں تک
آہوں کی رسائی ہے زمیں اور زماں تک
بن اس کے ہے دشوار یہاں سانس بھی لینا
آیا ہے کوئی دل میں اتر کر رگ جاں تک
کانوں میں وہ امرت سا اتر جاتا ہے بن کر
تاثیر مسیحائی کی آئے جو زباں تک
ہر دل میں تمنا تو ہر اک آنکھ میں حسرت
شیدائی الفت ہے یہاں پیر و جواں تک
محروم نظر ہے مرا زخموں سے بھرا دل
حاصل ہے ہمیں داد فقط زور بیاں تک
گردن یہ کسی طور کبھی بچ نہ سکے گی
آ جائے گی جس روز قضا نوک سناں تک
جس روز یقیں آئے گا مر جائیں گے اس دن
رہنے دو محبت کو یوں ہی وہم و گماں تک