شراب پی کر دیا ہے تم نے جو ہم کو جام شراب آدھا
شراب پی کر دیا ہے تم نے جو ہم کو جام شراب آدھا
ازل سے لکھا ہوا تھا شاید کہ پائیں ہم تم ثواب آدھا
گلے لگا کر لیا تھا بوسہ ہوئے تھے راضی وصال پر بھی
تڑپ نے دل کو جگا دیا کیوں ابھی تو دیکھا تھا خواب آدھا
فلک سے کہہ دو سحر قریں ہے گئی وہ ظلمت ہوئی شب آخر
شفق حنا لے کے آپ آئے کہ اڑ گیا ہے خضاب آدھا
یہاں ہے زوروں پہ ناتوانی وہاں نزاکت سے بات مشکل
نہ کس طرح ہو سوال آدھا نہ کس طرح ہو جواب آدھا
میں اپنی الفت کا حال لکھوں بیان حسن صنم کو پڑھ کر
اشارہ یہ ہے جو سادہ رکھا ورق میان کتاب آدھا
چھپا لیں ہاتھوں سے اس نے آنکھیں الٹ جو دی ہے نقاب رخ سے
رکے نہ دست ہوس کی شوخی رہے یہ جب تک حجاب آدھا
تمہاری اٹھتی ہوئی جوانی جو دیکھ پائی شناوری میں
وفور حیرت سے رہ گیا ہے ابھر کے ہر اک حباب آدھا
حیاتؔ غفلت نہیں مناسب بتوں کی طاعت کو چھوڑ دو اب
ذرا تو چونکو چلی جوانی گزر گیا ہے شباب آدھا