شام فرقت ملا یہ سہارا مجھے

شام فرقت ملا یہ سہارا مجھے
بارہا بے کسی نے پکارا مجھے


آ گیا ہاتھ میں جام کیف آفریں
مل گیا ہجر غم کا کنارا مجھے


کر گیا بے نیاز غم این و آں
ان کی دل کش نظر کا اشارا مجھے


انقلاب محبت یہ کیا ہو گیا
ان کا غم بھی نہیں اب گوارا مجھے


تیرے جلوؤں کو تھی جب مری جستجو
یاد ہے آج تک وہ نظارا مجھے


لاکھ ہو زیر پھر بھی غم زندگی
سو سہاروں کا ہے اک سہارا مجھے


روز افزوں ہے بے چارگی عشق کی
سوجھتا ہی نہیں کوئی چارا مجھے


کہہ دیا ان سے پرویزؔ سب حال دل
خامشی دے گئی ہے سہارا مجھے