اے کائنات تیرے سہارے ہمیں تو ہیں

اے کائنات تیرے سہارے ہمیں تو ہیں
تیرے نظر نواز اشارے ہمیں تو ہیں


امواج حسن و عشق کا عرفاں ہمیں سے ہے
دریائے زندگی کے کنارے ہمیں تو ہیں


طوفان حادثات کے خالق تمہیں تو ہو
طوفان جن کو پار اتارے ہمیں تو ہیں


ہم سے سوا حیات کو سمجھے گا اور کون
ان کی نوازشات کے مارے ہمیں تو ہیں


یہ اور بات ہے کہ تمہیں علم ہی نہیں
ورنہ بھرے جہاں میں تمہارے ہمیں تو ہیں


دنیائے زندگی کا نظارہ کریں تو کیا
دنیائے زندگی کے نظارے ہمیں تو ہیں


پرویزؔ شاعری کی حرارت ہمیں سے ہے
علم و ادب کے شوخ شرارے ہمیں تو ہیں