یک بیک جو کسی کا خیال آ گیا
یک بیک جو کسی کا خیال آ گیا
روح بے خود ہوئی دل کو حال آ گیا
دہر سے رسم مہر و وفا اٹھ گئی
آدمیت میں کیسا زوال آ گیا
کوئی دیکھے ترے حسن کی ساحری
جس نے دیکھا تجھے اس کو حال آ گیا
پڑ گئی جب کسی کی نگاہ کرم
میرے بھوؤں میں رنگ کمال آ گیا
پوچھتے کیا ہو پرویزؔ کی داستاں
ان کی محفل سے ہو کر نڈھال آ گیا