صحرائے زندگی کے لئے نور دیدہ ہوں

صحرائے زندگی کے لئے نور دیدہ ہوں
کانٹا سہی مگر میں گل نو دمیدہ ہوں


مجھ پر کھلا ہے عہد بہار و خزاں کا راز
میں اک حسین پھول کا رنگ پریدہ ہوں


تجھ کو بھی زندگی نے دیا درد بے کراں
میں بھی غم حیات کا لذت چشیدہ ہوں


تجھ سے مرا تعلق خاطر ہے دائمی
تو ہے اگر غزل تو میں تیرا قصیدہ ہوں


دنیا مٹی ہوئی ہے مرے اختصار پر
دوشیزۂ حیات کی زلف بریدہ ہوں


تم کو مرے تغافل بے جا کا ہے گلہ
میں کچھ دنوں سے خود سے بھی دامن کشیدہ ہوں


میں سوچتا ہوں مجھ پہ یہ تہمت ہے کس لئے
اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں برگزیدہ ہوں


کانٹوں سے کھیلتا ہوں گلستان عشق میں
پرویزؔ فرط شوق میں دامن دریدہ ہوں