بچوں کے لیے پیارے نبیﷺ کی سیرت:چوتھی قسط
عزیز دوستو۔ہمارے آقا حضور ﷺ کے والد محترم کا انتقال آپﷺ کی پیدائش سے چند ماہ پہلے ہوگیا تھا۔والدہ محترمہ اس وقت فوت ہوگئیں جب آپﷺکی عمر مبارک چھ سال تھی پھر پرورش کی ذمہ داری آپﷺ کے دادا نے سنبھالی۔اور جب آپﷺ آٹھ سال دو ماہ اور دس دن کے ہوئے تو آپﷺ کے یہ بزرگ دادا بھی چل بسے۔اس طرح آپﷺ اس دنیا میں بالکل تنہارہ گئے۔
آپﷺ کے بزرگ دادا بہت دوراندیش شخص تھےانہوں نے اپنی موت سے کچھ دن پہلے اپنے بیٹے ابوطالب کو بلاکر وصیت کی تھی۔کہ میرے بعد اپنے اس یتیم بھتیجے کی پرورش نہایت ہمدردی اور محبت سے کرنا۔(بچو۔بعض تاریخ دان یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے زبیر کو وصیت کی تھی)چنانچہ جب سردار عبدالمطلب سرداری کی گدّی پر بیٹھے تو پہلی فرصت میں وہ ہمارے آقا حضور ﷺکو اپنے گھر میں لے آئے جہاں بڑی محبت سے اپنے بچوں کی طرح ان کی پرورش کرنے لگے۔حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں سے بڑھ کر آپﷺ کی خدمت کی۔اور آقا حضورﷺان کے اس احسان کو ساری عمریاد کیاکرتے تھے۔
جناب ابوطالب کے گھر میں یہ رواج تھا ۔کہ کھانا ایک جگہ رکھ دیا جاتا تھا۔اور سب بچے اکٹھے ہوکر اس پر ٹوٹ پڑتے تھےاور لوٹ کھسوٹ شروع ہوجاتی ۔مگر پیار ے بچوّ ۔ہمارے آقا حضورﷺ نے کبھی اس لوٹ میں حصہ نہیں لیا۔بلکہ چپ چاپ زم زم کے کنویں پر جاتے اور اس کا پانی پی کر صبر کرتے تھے۔کیوں کہ اس پانی میں یہ اثر ہے کہ وہ بھوک اور پیاس دونوں کو دورکرتا ہے اور کئی بیماریوں سے نجات دیتا ہے۔
اسی طرح کئی دن گزرگئے لیکن ایک دن آپ کی محترمہ چچی۔فاطمہ بنت اسد۔نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کے بھتیجے اس لوٹ میں شامل نہیں ہوئے اور زم زم کے کنویں کی طرف چلے گئے ہیں۔انہیں بہت افسوس ہوا کہ ان کا بھتیجا بھوکا رہتا ہےاس لیے جب آپ واپس گھر میں آئے تو انہوں نے کہا۔
’’ بیٹا ،بھوکا رہنے کی بجائے تم نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی میں تمہار الگ بندوبست کردیتی‘‘
لیکن آپ ﷺ نے فرمایا:
’’امّی جان ۔میں زم زم کا پانی پی کر گزارہ کرلیتا ہوں‘‘
آپﷺ کی چچی صاحبہ آپ کی اس شرافت ،صداقت اور صبر سے بہت متاثر ہوئیں۔اور انہوں نے دوسرے دن سے ہمارے آقا حضورﷺ کے کھانے کا بالکل علیحدہ بندوبست کردیا۔تاکہ دوبارہ آپﷺ کو ایسی پریشانی نہ ہو۔پیارے بچوّ۔ہمارے آقا حضورﷺ کی یہ چچی صاحبہ حضرت علی ؓ کی والدہ ہیں جنہوں نے آپﷺ کو اپنی حقیقی اولاد کی طرح پرورش کیا اور حقیقی ماں کی طرح آپﷺ کی تمام ضروریات کا خیال رکھا وہ دل وجان سے آپ کو چاہتی تھیں اور بچو آپﷺ کی پیاری عادتیں بھی ایسی ہی تھیں کہ ہرکوئی آپﷺسے پیار کرتا تھا۔ان کے اس عمدہ سلوک کا یہ اثر ہواکہ ہمارے آقا حضورﷺ نے انہیں بھی امّی کے بعد امّی کہا اور بالکل حقیقی ماں کی طرح سمجھا۔اس واقع سے آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے آقا حضورﷺ کے نزدیک ماں کا درجہ کتنا بلند ہے آپﷺ فرمایا کرتے تھے۔
’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘
یعنی ماں کی خدمت کرنے والا جنت میں جائے گا۔
پیارے بچوّ ۔ام ایمن نے یہاں بھی آپﷺ کی بہت خدمت کی۔آپﷺکےچچا اور چچی دونوں آپﷺ کو بہت چاہتے تھے۔اور اس گھر میں آپﷺ کو حقیقی والدین کا پیار ملا تھا۔